آیات 4 - 7
 

قُتِلَ اَصۡحٰبُ الۡاُخۡدُوۡدِ ۙ﴿۴﴾

۴۔ خندقوں والے ہلاک کر دیے گئے۔

النَّارِ ذَاتِ الۡوَقُوۡدِ ۙ﴿۵﴾

۵۔ وہ آگ تھی جو ایندھن والی ہے،

اِذۡ ہُمۡ عَلَیۡہَا قُعُوۡدٌ ۙ﴿۶﴾

۶۔ جب وہ اس (کے کنارے) پر بیٹھے تھے،

وَّ ہُمۡ عَلٰی مَا یَفۡعَلُوۡنَ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ شُہُوۡدٌ ؕ﴿۷﴾

۷۔ اور وہ مومنین کے ساتھ روا رکھے گئے اپنے سلوک کا مشاہدہ کر رہے تھے۔

تشریح کلمات

الۡاُخۡدُوۡدِ:

( خ د د ) کے معنی ہیں زمین میں مستطیل اور گہرا گڑھا (خندق)۔

تفسیر آیات

۱۔ قُتِلَ: یہ تعبیر بد دعا ہے اخدود کے واقعہ کے مرتکب لوگوں کے لیے کہ وہ ہلاکت میں جائیں۔ جواب قسم کے بارے میں کئی اقوال ہیں: جواب محذوف ہے یعنی کفار قریش ملعون ہیں۔ جیسے اصحاب اخدود ملعون ہیں۔ بعض کے نزدیک جواب اِنَّ بَطۡشَ رَبِّکَ لَشَدِیۡدٌ ہے۔ بعض کے نزدیک اِنَّ الَّذِیۡنَ فَتَنُوا ہے۔

واقعہ اس طرح منقول ہے:

یمن کا یہودی بادشاہ حمیری خاندان کا تھا۔ اس کا نام ذونواس تھا۔ اس نے نجران پر (جو اس وقت نصاریٰ کا مرکز تھا) حملہ کر دیا اور وہاں کے لوگوں کو یہودیت قبول کرنے کی دعوت دی مگر انہوں نے اس دعوت کو ٹھکرا دیا اور قتل ہونا قبول کیا۔ اس ظالم بادشاہ نے لوگوں کو آگ سے بھرے ہوئے گڑھوں میں پھینک دیا۔ بعض کو قتل کیا۔ اس طرح بیس ہزار افراد کو قتل کیا۔

بعض سیاحوں نے اپنے سفرنامے میں لکھا ہے کہ نجران کے لوگوں میں اب تک وہ جگہ معروف ہے جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا۔

روایت ہے کہ وہاں سے ذوثعبان نامی ایک شخص نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس نے قیصر روم سے یا دیگر روایت کے مطابق حبش کے بادشاہ نجاشی سے یہ واقعہ بیان کیا تو حبش کے بادشاہ نے یمن پر حملہ کر کے ذونواس کو قتل کیا۔ یہودی حکومت ختم ہونے کے بعد یمن حبشی عیسائی سلطنت کا حصہ بن گیا۔

تفہیم القرآن میں ہے: یہ ۵۲۳ء میں پیش آیا اور حبش کے بادشاہ نے ۵۲۵ھ میں یمن پر حملہ کر دیا۔ لکھتے ہیں: اس کی تصدیق حصین غراب کے کتبے سے ہوتی ہے جو یمن میں موجودہ زمانے کے محققین آثار قدیمہ کو ملا ہے۔


آیات 4 - 7