آیت 61
 

وَ اِنۡ جَنَحُوۡا لِلسَّلۡمِ فَاجۡنَحۡ لَہَا وَ تَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ﴿۶۱﴾

۶۱۔اور (اے رسول) اگر وہ صلح و آشتی کی طرف مائل ہو جائیں تو آپ بھی مائل ہو جائیے اور اللہ پر بھروسا کیجیے۔ یقینا وہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔

تفسیر آیات

اسلام امن و آشتی کا دین ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ادۡخُلُوۡا فِی السِّلۡمِ کَآفَّۃً ۔۔۔۔۔۔ (۲ بقرۃ: ۲۰۸)

اے ایمان لانے والو! تم سب کے سب (دائرہ) امن و آشتی میں آجاؤ۔۔۔۔

بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ صلح و آشتی کا یہ حکم آیہ فَاقۡتُلُوا الۡمُشۡرِکِیۡنَ حَیۡثُ وَجَدۡتُّمُوۡہُمۡ (۹ توبۃ:۵) ’’مشرکین کو جہاں پاؤ قتل کرو‘‘ سے منسوخ ہو گیا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ یہ حکم منسوخ نہیں ہوا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سورہ برائت کے نزول کے بعد اہل نجران کے ساتھ صلح کی ہے۔

جنگ کسی صورت میں بھی اچھی چیز نہیں ہے۔ اگر صلح و آشتی کے لیے کوئی صورت موجود ہو تو صلح کو ہر صورت میں ترجیح دینی چاہیے۔ اسلامی اخلاق و اقدارکا بھی یہی تقاضا ہے کہ دشمن اگر صلح کے لیے ہاتھ بڑھائے تو اس کے جواب میں ہاتھ بڑھایا جائے۔ مصالحت کا یہ حکم ممکن ہے اس صورت میں ہے، جب کافروں کی مکاریاں اور سازشیں سامنے نہیں آئیں ، بعد میں جب کافر اسلام کو ختم کرنے پر تل گئے تواسلام نے ان کفار کے بارے میں یہ مؤقف اختیار کیا کہ وہ یا اسلام قبول کریں یا جنگ کے لیے آمادہ ہوں یا جزیہ دے کر معاہدہ کریں۔

تَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ: صلح اور امن میں آنے کے بعد یہ فکر نہ کرو کہ دشمن کو اپنی قوت مجتمع کرنے کا موقع ملے گا، وہ ایک طاقت کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ کرے گا بلکہ اللہ پر توکل کرو۔ دشمن کی ہر چال اللہ کے سامنے ہے۔ وہ سمیع و علیم ہے۔

اہم نکات

۱۔ ظاہری اسباب (صلح) پر عمل کرنے کے بعد ہی توکل کرنا ہوتا ہے۔


آیت 61