آیت 49
 

اِذۡ یَقُوۡلُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ غَرَّہٰۤؤُ لَآءِ دِیۡنُہُمۡ ؕ وَ مَنۡ یَّتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ فَاِنَّ اللّٰہَ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ﴿۴۹﴾

۴۹۔جب(ادھر)منافقین اور جن کے دلوں میں بیماری تھی، کہ رہے تھے : انہیں تو ان کے دین نے دھوکہ دے رکھا ہے، جب کہ اگر کوئی اللہ پر بھروسہ رکھتا ہے تو اللہ یقینا بڑا غالب آنے والا حکمت والا ہے۔

تفسیرآیات

۱۔ اِذۡ یَقُوۡلُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ: اس آیت میں دو گروہوں کا ذکر ہے۔ ایک منافقین کا جو دل میں کفر رکھتے ہیں اور بظاہر اسلام کا اظہار کرتے ہیں۔ د وسرے وہ لوگ جو ایمان کی منزل پر فائز نہیں ہیں تاہم وہ انکار بھی نہیں کرتے بلکہ اس جدید دین کے بارے میں شک و تردد کا شکار ہیں۔ یہ دونوں گروہ واقعات کو صرف ظاہری و مادی علل و اسباب کے پیمانے پر تولتے تھے۔ وہ ان ظاہری علل و اسباب کے ماوراء میں موجود دیگر علل و اسباب کو سمجھنے سے قاصر تھے۔ پھر وہ ان سب کے ماو راء میں موجود علت العلل کو کیسے سمجھ سکتے تھے۔

۲۔ غَرَّہٰۤؤُ لَآءِ دِیۡنُہُمۡ: وہ طنز و استہزاء کے طور پر کہتے تھے: مٹھی بھر مسلمانوں کا نہایت بے سر و سامانی میں قریش کے طاقتور لشکر کے مقابلے میں آنا خودکشی، بیوقوفی اور حماقت ہے۔ ان کو اس نظریے نے دھوکہ میں ڈالا ہے کہ ہم مسلمان ہیں ، ہم حق پر ہیں وغیرہ۔ یہ بیچارے اس غلط فہمی میں مارے جائیں گے۔ اپنے آپ کو تباہ کریں گے۔

۳۔ وَ مَنۡ یَّتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ: آیت کے دوسرے حصے میں اس کا جواب ہے کہ جو اللہ پر توکل کرتا ہے تو اللہ غالب آنے والا ہے۔ اللہ طاقت کا سرچشمہ ہے اور حکیم ہے۔ اس کا کوئی بھی عمل حکمت و مصلحت سے خالی نہیں ہوتا۔

اہم نکات

۱۔ حق والے ہمیشہ نفاق اور اہل شک کے طنز و استہزاء کا ہدف بنتے رہتے ہیں : غَرَّہٰۤؤُ لَآءِ دِیۡنُہُمۡ ۔۔

۲۔ کامیابی و ناکامی کے لیے مادی علل و اسباب کے ساتھ غیر مادی علل و اسباب بھی کارفرما ہوتے ہیں : وَ مَنۡ یَّتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ۔۔۔۔


آیت 49