آیت 48
 

وَ اِذۡ زَیَّنَ لَہُمُ الشَّیۡطٰنُ اَعۡمَالَہُمۡ وَ قَالَ لَا غَالِبَ لَکُمُ الۡیَوۡمَ مِنَ النَّاسِ وَ اِنِّیۡ جَارٌ لَّکُمۡ ۚ فَلَمَّا تَرَآءَتِ الۡفِئَتٰنِ نَکَصَ عَلٰی عَقِبَیۡہِ وَ قَالَ اِنِّیۡ بَرِیۡٓءٌ مِّنۡکُمۡ اِنِّیۡۤ اَرٰی مَا لَا تَرَوۡنَ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اللّٰہَ ؕ وَ اللّٰہُ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ﴿٪۴۸﴾

۴۸۔اور جب شیطان نے ان کے اعمال ان کے لیے آراستہ کیے اور کہا:آج لوگوں میں سے کوئی تم پر فتح حاصل کر ہی نہیں سکتا اور میں تمہارے ساتھ ہوں، پھر جب دونوں گروہوں کا مقابلہ ہوا تو وہ الٹے پاؤں بھاگ گیا اور کہنے لگا: میں تم لوگوں سے بیزار ہوں میں وہ کچھ دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھ رہے، میں تو اللہ سے ڈرتا ہوں اور اللہ یقینا سخت عذاب دینے والا ہے۔

تشریح کلمات

نَکَصَ:

( ن ک ص ) النکوص ۔ کسی چیز سے پیچھے ہٹنا۔

الفئۃ:

( ف ی ء ) اس جماعت کو کہتے ہیں ، جس کے افراد تعاون کے لیے ایک دوسرے کی طرف لوٹ کر آئیں۔

تفسیرآیات

۱۔ وَ اِذۡ زَیَّنَ: اس آیت میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ شیطان نے نہ صرف وسوسۂ قلبی کے ذریعے بلکہ محسوس انداز میں مشرکین کو جنگ کے لیے آمادہ کیا۔

۲۔ وَ قَالَ لَا غَالِبَ: اور یہ باور کرایا کہ حجاز میں اس وقت کون سی طاقت ہے جو قریش پر غالب آ سکے۔

۳۔ وَ اِنِّیۡ جَارٌ لَّکُمۡ: اورکسی ذریعے سے اس نے یہ باور کرایا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ چنانچہ شیطان اس مقصد کے لیے مشرکین میں سے اپنے شیطانی لوگوں کو استعمال کرتا ہے۔ وہ آگے آتے ہیں اور کہتے ہیں : ہم تمہاری مدد کے لیے تیار ہیں۔

۴۔ فَلَمَّا تَرَآءَتِ: بعد میں جب فرشتوں کو دیکھا یا دوسرے آثار سے شیطان کو علم ہوا کہ مسلمانوں کی فتح ہو رہی ہے تو اظہار بیزاری کر کے وہ بھاگ گیا۔ جیسا کہ بعض روایات میں آیاہے کہ اس نے یہ کام بنی کنانہ کے سردار سراقہ بن مالک کی شکل میں آکر کیا۔

اہم نکات

۱۔ شیطان وہ کچھ دیکھتا ہے جو عام انسان نہیں دیکھ سکتا: اِنِّیۡۤ اَرٰی مَا لَا تَرَوۡنَ ۔۔۔۔

۲۔ علم، خوف کاسبب ہے، خواہ شیطان ہی کیوں نہ ہو: اِنِّیۡۤ اَخَافُ اللّٰہَ ۔۔۔۔

۳۔ برائی کے ارتکاب کے لیے شیطان حوصلہ دیتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ جب ارتکاب کر چکتا ہے تو شیطان ساتھ چھوڑ دیتا ہے: وَ قَالَ اِنِّیۡ بَرِیۡٓءٌ مِّنۡکُمۡ ۔۔۔۔


آیت 48