آیات 50 - 51
 

وَ لَوۡ تَرٰۤی اِذۡ یَتَوَفَّی الَّذِیۡنَ کَفَرُوا ۙ الۡمَلٰٓئِکَۃُ یَضۡرِبُوۡنَ وُجُوۡہَہُمۡ وَ اَدۡبَارَہُمۡ ۚ وَ ذُوۡقُوۡا عَذَابَ الۡحَرِیۡقِ﴿۵۰﴾

۵۰۔ اور کاش آپ (اس صورت حال کو) دیکھ لیتے جب فرشتے (مقتول) کافروں کی روحیں قبض کر رہے تھے، ان کے چہروں اور پشتوں پر ضربیں لگا رہے تھے اور (کہتے جا رہے تھے) اب جلنے کا عذاب چکھو ۔

ذٰلِکَ بِمَا قَدَّمَتۡ اَیۡدِیۡکُمۡ وَ اَنَّ اللّٰہَ لَیۡسَ بِظَلَّامٍ لِّلۡعَبِیۡدِ ﴿ۙ۵۱﴾

۵۱۔ یہ عذاب تمہارے اپنے ہاتھوں آگے بھیجے ہوئے کا نتیجہ ہے اور یہ کہ اللہ بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ یَتَوَفَّی: التوفی ۔ پورا حق وصول کرنے کو کہتے ہیں۔ یہ لفظ قرآن میں بیشتر قبض روح کے لیے استعمال ہوا ہے۔

۲۔ الۡمَلٰٓئِکَۃُ: یہ قبض روح کرنے والے فرشتے ہوتے ہیں جب کہ سورہ سجدہ آیت ۱۱ میں فرمایا:

قُلۡ یَتَوَفّٰىکُمۡ مَّلَکُ الۡمَوۡتِ الَّذِیۡ وُکِّلَ بِکُمۡ ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمۡ ۔۔۔۔

کہدیجیے: موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تمہاری روحیں قبض کرتا ہے۔۔۔۔

ان دونوں آیتوں سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ملک الموت (عزرائیل) کے کارندے، دیگر فرشتے ہوتے ہیں جو لوگوں کی روحیں قبض کرتے ہیں۔

معرکہ بدر کی فتح و نصرت میں ظاہری علل و اسباب کے ماوراء میں غیر مرئی علل و اسباب کا ذکر ہے کہ فرشتے کافروں کی روحیں قبض کر رہے ہیں اور ذلت و خواری کے ساتھ ان کو آتش جہنم کی طرف لے جا رہے ہیں۔

۳۔ یَضۡرِبُوۡنَ: فرشتے روحیں قبض کرنے کے وقت سے ان پر عذاب کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

۴۔ وَ ذُوۡقُوۡا عَذَابَ الۡحَرِیۡقِ: جلنے کا عذاب چکھو۔ اس سے معلوم ہوا حالت قبض روح سے برزخ کا عذاب شروع ہو جائے گا۔

۵۔ ذٰلِکَ بِمَا قَدَّمَتۡ: یہ سزا خود ان کی حرکتوں کا لازمی نتیجہ اور مکافات عمل ہے۔ بلاوجہ عذاب دینے کا سوال پیدا نہیں ہوتا کیونکہ ایسا کرنا ظلم ہے۔ ظلم وہ کرتا ہے جسے اس کی ضرورت ہو یا اس کے ذریعے وہ اپنی آتش انتقام کو ٹھنڈا کرے۔ اللہ تعالیٰ ان سب سے مبرا ہے۔ لہٰذا اس سے ظلم صادر نہیں ہوتا۔

اہم نکات

۱۔ قبض روح کے لیے ملک الموت کے کارندے، فرشتے ہوتے ہیں : یَتَوَفَّی الَّذِیۡنَ کَفَرُوا ۙ الۡمَلٰٓئِکَۃُ ۔۔۔۔

۲۔ عذاب کا سبب انسان کا اپنا عمل ہے: قَدَّمَتۡ اَیۡدِیۡکُمۡ ۔۔۔۔


آیات 50 - 51