آیت 46
 

وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ لَا تَنَازَعُوۡا فَتَفۡشَلُوۡا وَ تَذۡہَبَ رِیۡحُکُمۡ وَ اصۡبِرُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ ﴿ۚ۴۶﴾

۴۶۔ اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں نزاع نہ کرو ورنہ ناکام رہو گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر سے کام لو، بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

تشریح کلمات

فَتَفۡشَلُوۡا:

الفشل ( ف ش ل ) کے معنی کمزوری کے ساتھ بزدلی کے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ اطاعت اور تعمیل حکم: دوسرے لفظوں میں تنظیم اور ڈسپلن کو جنگی حکمت عملی میں سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ جیسا کہ تمام عسکری قوانین میں اس بات کو اولیت دی جاتی ہے۔

۲۔ باہمی نزاع سے احتراز کرنا: اگرچہ ہر معاشرے کو اتحاد کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے۔ تاہم اس کی ضرورت جنگ میں زیادہ ہوتی ہے۔ باہمی نزاع اطاعت اور قیادت کے فقدان کی صورت میں رونما ہوتا ہے۔

قیادت اور اطاعت ہونے کی صورت میں اختلاف رائے ہو سکتا ہے مگر نزاع نہیں ہوتا۔ اطاعت نہ ہونے کی صورت میں نزاع اور نزاع ہونے کی صورت میں دو نتائج سامنے آئیں گے: ناکامی اور کمزوری۔

چنانچہ احد کی جنگ میں قیادت کے احکام کی پابندی نہ کرنے کی صورت میں شکست سامنے آ گئی۔

وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ: خدا اور رسول کی طرف سے جو جنگی احکام اور حربی قوانین تم کو بتائے جائیں گے ان کی اطاعت کرو۔

ii۔ وَ لَا تَنَازَعُوۡا: عدم اطاعت کی صورت میں عسکری نظام، اختلاف پھر نزاع کا شکار ہو جائے گا۔ نزاع کی صورت میں دو ایسے نتائج سامنے آئیں گے جو اسلامی نظام کے لیے قابل تحمل نہیں ہیں :

الف۔ فَتَفۡشَلُوۡا: نزاع کا پہلا نتیجہ ناکامی اور شکست ہے۔ نزاع میں آراء متصادم ہوتی ہیں اور کوئی رائے قابل عمل نہیں رہتی۔

ب۔ وَ تَذۡہَبَ رِیۡحُکُمۡ: دوسرا نتیجہ، قوت و شوکت کی ہوا اکھڑ جاتی ہے جس سے اسلامی لشکر میں کمزوری اور دشمن کو تقویت مل جاتی ہے۔

۳۔ وَ اصۡبِرُوۡا: میدان حرب ہے، جہاں مسائل و مشکلات کے علاوہ کسی اور چیز کی کیا توقع رکھی جا سکتی ہے۔ اس کے لیے واحد اسلحہ صبر ہے۔

۴۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ: صبر و ثبات کو اللہ پسند فرماتا اور ساتھ دیتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ نزاع ہمیشہ اطاعت خدا و رسول کے مقابلے میں نفس پرستی سے پیش آتا ہے۔

۲۔ مسلمان ناکام اور کمزور، اطاعت و تنظیم کے فقدان کی وجہ سے ہیں۔


آیت 46