آیت 47
 

وَ لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ خَرَجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمۡ بَطَرًا وَّ رِئَآءَ النَّاسِ وَ یَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا یَعۡمَلُوۡنَ مُحِیۡطٌ﴿۴۷﴾

۴۷۔ اور ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جو اپنے گھروں سے اتراتے ہوئے اور لوگوں کو دکھانے کے لیے نکلے ہیں اور اللہ کا راستہ روکتے ہیں اور اللہ ان کے اعمال پر خوب احاطہ رکھتا ہے۔

تشریح کلمات

بَطَرًا:

البطر ۔ ( ب ط ر ) وہ حالت،جو خوشحالی کے غلط استعمال اور حق نعمت میں کوتاہی سے انسان کو لاحق ہوتی ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَا تَکُوۡنُوۡا: کفار قریش جس حال میں نکلے تھے، اس کی طرف اشارہ ہے۔ وہ رقص و سرود، مے نوشی کی محفلیں جماتے ہوئے غرور وتکبر کے ساتھ نکلے تھے اور ذلت آمیز شکست سے دوچار ہو کر انہیں واپس جانا پڑا۔

جنگی تاریخ میں اس بات پر بے شمار شواہد موجود ہیں کہ جو لشکر خودبینی و تکبر اور غرور کا شکار رہا وہ شکست سے دوچار ہوا ہے۔

بدر کی فتح کے بعد مسلمانوں کو تکبر و غرور سے بچانے کے لیے اس تنبیہ کی ضرورت پیش آئی۔

۲۔ وَ یَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ: ان لوگوں کی طرح بھی مت ہونا جو اللہ کی طرف جانے کا راستہ روکنے کے لیے جنگ کرنے نکلتے ہیں۔ یعنی ان کا عزم و ارادہ بھی مجرمانہ ہے۔ لہٰذا اسلامی لشکر کو ان دونوں باتوں سے پاک ہونا چاہیے۔ یعنی تکبر و غرور نہیں ہونا چاہیے اور ارادہ بھی پاکیزہ ہونا چاہیے۔

اہم نکات

۱۔ تکبر و غرور کا انجام ذلت و خواری ہے۔


آیت 47