آیت 45
 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا لَقِیۡتُمۡ فِئَۃً فَاثۡبُتُوۡا وَ اذۡکُرُوا اللّٰہَ کَثِیۡرًا لَّعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿ۚ۴۵﴾

۴۵۔ اے ایمان والو! جب کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو جائے تو ثابت قدم رہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔

تفسیر آیات

ان آیات میں جنگ و جدال کے لیے ایسی ہدایات کا ذکر ہے جن پر کامیابی کا انحصار ہے:

۱۔ ثبات قدم: جنگ میں سب سے زیادہ ثابت قدمی فیصلہ کن کردار کرتی ہے کیونکہ ثابت قدم نہ ہونے کی صورت میں لغزش قدم یعنی میدان چھوڑ کر بھاگ جانے کی نوبت آتی ہے۔ ثبات قدم کی صورت میں دوسرے جنگی وسائل بروئے کار لائے جا سکتے ہیں ، ورنہ لرزتے ہاتھوں میں دنیا کا بہترین اسلحہ بھی صحیح کام نہیں کر سکتا۔

۲۔ ذکر خدا: طاقت و قوت کے اصل سرچشمہ سے مربوط اور منسلک رہنا۔ جنگ میں ذکر خدا کا مطلب یہ ہے کہ جنگ کے عوامل کیا ہیں ؟ اس کے مقاصد کیا ہیں ؟ کس لیے یہ جنگ لڑی جا رہی ہے؟ ان تمام مراحل میں اللہ کو یاد رکھا جائے۔ کہیں انسان اللہ کو فراموش کر کے دوسرے عوامل کو سامنے نہ رکھے۔ اگر جنگ اللہ کے لیے لڑی جائے تو اس پر توکل اور بھروسا ہو گا۔ فتح و نصرت کی نوید پر اعتماد آئے گا۔ خد ا کے لیے لڑی جانے والی جنگ میں فتح یا شہادت نصیب ہو گی اور یہ ایسی جنگ ہے جس میں کامیابی یقینی ہے۔ ایسی جنگ میں ثابت قدمی بھی یقینی ہو جاتی ہے۔ اگر جنگ میں ذکر خدا جیسی روحانی طاقت کارفرما نہ ہو تو مال و اولاد، دنیاوی زندگی اور دوسرے غیر خدائی عوامل انسان کے قدموں میں لغزش پیدا کرتے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ ذکر خدا امر قلبی ہے جو انسان سے ایک توجہ کے سوا وقت اور طاقت نہیں مانگتا۔ اس لیے کثرت سے ذکر خدا کرنے کا حکم دیا ہے۔ کسی اور عبادت کے لیے کَثِیۡرًا کا لفظ استعمال نہیں کیا۔

۲۔ جہاد کے وقت ذکر خدا کا بہترین نمونہ عمل، سیرت علی علیہ السلام ہے کہ دشمن نے آپؑ کے منہ پر تھوکا تو اس کے سینہ سے اترآئے اور اسے چھوڑ دیا کہ کہیں یہ قتل ذاتی انتقام کے تحت عمل میں نہ آئے۔


آیت 45