آیات 43 - 44
 

اِذۡ یُرِیۡکَہُمُ اللّٰہُ فِیۡ مَنَامِکَ قَلِیۡلًا ؕ وَ لَوۡ اَرٰىکَہُمۡ کَثِیۡرًا لَّفَشِلۡتُمۡ وَ لَتَنَازَعۡتُمۡ فِی الۡاَمۡرِ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ سَلَّمَ ؕ اِنَّہٗ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ﴿۴۳﴾

۴۳۔ (وہ وقت یاد کرو) جب اللہ نے آپ کے خواب میں ان (کافروں کے لشکر کو) تھوڑا دکھلایا اور اگر آپ کو ان کی مقدار زیادہ دکھلاتا تو (اے مسلمانو) تم ہمت ہار جاتے اور اس معاملے میں جھگڑا شروع کر دیتے لیکن اللہ نے(تمہیں) بچا لیا، بیشک وہ دلوں کا حال خوب جانتا ہے۔

وَ اِذۡ یُرِیۡکُمُوۡہُمۡ اِذِ الۡتَقَیۡتُمۡ فِیۡۤ اَعۡیُنِکُمۡ قَلِیۡلًا وَّ یُقَلِّلُکُمۡ فِیۡۤ اَعۡیُنِہِمۡ لِیَقۡضِیَ اللّٰہُ اَمۡرًا کَانَ مَفۡعُوۡلًا ؕ وَ اِلَی اللّٰہِ تُرۡجَعُ الۡاُمُوۡرُ﴿٪۴۴﴾

۴۴۔ اور (وہ وقت یاد کرو) جب تم مقابلے پر آ گئے تھے تو اللہ نے کافروں کو تمہاری نظروں میں تھوڑا کر کے دکھایا اور تمہیں بھی کافروں کی نظروں میں تھوڑا کر کے دکھایا تاکہ اللہ کو جو کام کرنا منظور تھا وہ کر ڈالے اور تمام معاملات کی بازگشت اللہ کی طرف ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اِذۡ یُرِیۡکَہُمُ اللّٰہُ: یہاں دو حالتوں ، خواب اور بیداری میں کافروں کی تعداد کو تھوڑا کر کے دکھانے کا ذکر ہے۔ مدینے سے نکل رہے تھے، راستے میں کسی جگہ حضورؐ نے خواب میں دشمنوں کے لشکر کو دیکھا کہ ان کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے۔ آپؐ نے یہ خواب مسلمانوں کو سنایا، جس سے ان میں ہمت بڑھی۔

انبیاء (ع) کے خواب سچے ہوتے ہیں۔ یہاں کافروں کی قلت سے مراد تعدادی نہیں ، استعدادی ہے کہ وہ قوت و ہمت اور جنگی اعتبار سے بے وزن اور کھوکھلے ہیں۔

۲۔ اِذۡ یُرِیۡکُمُوۡہُمۡ: دوسری آیت میں عالم بیداری میں جب مسلمانوں کا کافروں سے مقابلہ ہوا تو کافروں کو مسلمانوں کی نظر میں کم کر کے دکھایا تاکہ مسلمانوں کا حوصلہ بلند رہے اور ساتھ کافروں کی نظر میں مسلمانوں کو بھی کم کر کے دکھایا تاکہ وہ اس جنگ کو آسان سمجھیں اور زیادہ منظم اور طاقت صرف کرنے کی ضرورت محسوس نہ کریں۔ اس طرح کافروں کی شکست کے سامان فراہم ہو جائیں۔

اہم نکات

۱۔ اللہ تعالیٰ کو جوکام کرنا منظور ہوتا ہے، اسے انجام دینے کے لیے علل و اسباب کا راستہ اختیار فرماتا ہے۔


آیات 43 - 44