آیت 30
 

وَ اِذۡ یَمۡکُرُ بِکَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لِیُثۡبِتُوۡکَ اَوۡ یَقۡتُلُوۡکَ اَوۡ یُخۡرِجُوۡکَ ؕ وَ یَمۡکُرُوۡنَ وَ یَمۡکُرُ اللّٰہُ ؕ وَ اللّٰہُ خَیۡرُ الۡمٰکِرِیۡنَ﴿۳۰﴾

۳۰۔ اور (وہ وقت یاد کریں) جب یہ کفار آپ کے خلاف تدبیر سوچ رہے تھے کہ آپ کو قید کر دیں یا آپ کو قتل کر دیں یا آپ کو نکال دیں وہ اپنی چال سوچ رہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کر رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔

تفسیر آیات

یہ آیت اسلامی تاریخ کے عظیم واقعہ ہجرت کے بارے میں ہے۔

مکہ کے سرداروں نے دار الندوہ میں جمع ہو کر رسالتمآب (ص) کو قید یا جلا وطن یا قتل کرنے کی تدبیروں پر غور کیا۔ آخر میں ابو جہل کی اس تجویز پر اتفاق ہوا کہ تمام قبیلوں میں سے ایک ایک فرد کا انتخاب کیا جائے اور یہ سب مل کر دفعتاً محمدؐ پر ٹوٹ پڑیں اور انہیں قتل کر دیں۔ اس طرح بنو عبد مناف سب قبیلوں سے انتقام لینے پر قادر نہ ہوں گے اور خون بہا لینے پر مجبور ہو جائیں گے۔ چنانچہ اس کام کے لیے افراد کا انتخاب ہو گیا اور وقت کا بھی تعین ہو گیا اور قاتلوں کا گروہ اپنے مقررہ وقت پر مقررہ جگہ پر پہنچ بھی گیا۔ ادھر جبریل امین نے رسول اللہؐ سے کہا: آج کی رات آپ اپنے بستر پر نہ سوئیں اور اپنی جگہ علی بن ابی طالب علیہ السلام کو سلائیں۔ چنانچہ رسول اللہؐ نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:

نم علی فراشی و اتشح ببردی ہذہ الحضرمی الاخضر فنم فیہ ۔ (شواہد التنزیل ۱: ۲۷۹۔ روح المعانی ذیل آیت)

میرے بستر پر سو جاؤ اور میرا حضرمی سبز لحاف اوڑھ لو اور اس میں سو جاؤ۔

رسول اللہؐ ان کی آنکھوں میں خاک جھونک کر نکل گئے۔ اس موقع پر حضرت علی علیہ السلام نے بستر رسولؐ پر سونے اور ان پر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کی سعادت حاصل ہونے پر ان لفظوں سے اظہار افتخار کیا:

وقیتُ بنفسی خیر من وطیٔ الحصی

و من طاف بالبیت العتیق و بالحجر

رسول اللہ خاف ان یمکروا بہ

فنجاہ ذوا الطول الا لہ من المکر

و بات رسول اللہ فی الغار آمنا

موقی و فی حفظ الالہ و فی ستر

وبت اراعیھم وما یثبتوننی

و قد وطنت نفسی علی القتل والأسر

(شواہد التنزیل ۱:۱۳۱۔ روح المعانی ذیل آیت)

میں نے اس ہستی پر جان کا نذرانہ پیش کیا جوروئے زمین پر چلنے والوں اور کعبہ و حجر کے طواف کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے۔ رسول اللہؐ کو جب کفار کا خطرہ لاحق ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو کافروں کے مکر و فریب سے نجات دی اور رسول اللہؐ غار میں امن و سلامتی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں رہے اور میں نے کافروں کی تاک میں رات گزاری اور قتل و اسیری کے لیے اپنے آپ کو آمادہ رکھا۔

بستر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حضرت علی علیہ السلام کے سونے کی حدیث کے بارے میں ملاحظہ ہو مسند احمد بن حنبل ۱: ۳۳۱ ط مصر۔ تفسیر طبری۔ مستدرک حاکم وغیرہ ۔

اہم نکات

۱۔ توکل بر خدا کر کے اس کی تدبیر کے تحت داخل ہونے کی صورت میں دشمن کی ہر چال سے انسان محفوظ رہتا ہے: وَ اللّٰہُ خَیۡرُ الۡمٰکِرِیۡنَ ۔


آیت 30