آیت 11
 

اِذۡ یُغَشِّیۡکُمُ النُّعَاسَ اَمَنَۃً مِّنۡہُ وَ یُنَزِّلُ عَلَیۡکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً لِّیُطَہِّرَکُمۡ بِہٖ وَ یُذۡہِبَ عَنۡکُمۡ رِجۡزَ الشَّیۡطٰنِ وَ لِیَرۡبِطَ عَلٰی قُلُوۡبِکُمۡ وَ یُثَبِّتَ بِہِ الۡاَقۡدَامَ ﴿ؕ۱۱﴾

۱۱۔ (وہ وقت یاد کرو) جب اللہ اپنی طرف سے امن دینے کے لیے تم پر غنودگی طاری کر رہا تھا اور آسمان سے تمہارے لیے پانی برسا رہا تھا تاکہ اس سے تمہیں پاک کرے اور تم سے شیطانی نجاست دور کرے اور تمہارے دلوں کو مضبوط بنائے اور تمہارے قدم جمائے رکھے۔

تفسیر آیات

۱۔ اِذۡ یُغَشِّیۡکُمُ النُّعَاسَ اَمَنَۃً مِّنۡہُ: اپنے سے کئی گنا بڑے لشکر کا مقابلہ ہے اور امن و سکون کی نیند سو رہے ہیں۔ اَمَنَۃً مِّنۡہُ: اگر مِنہُ کی ضمیر دشمن کی طرف ہے تو دشمن سے امن مراد ہے اور اگر مِّنۡہُ کی ضمیر اللہ کی طرف ہے تو اللہ کی طرف سے امن مراد ہے۔

انتہائی نامساعد حالات میں جنگ لڑی جارہی ہے اور اپنے سے کئی گنا زیادہ طاقتور دشمن سے مقابلہ ہے، اس کے باوجود اللہ کی طرف سے یہ تائید تھی کہ لشکر اسلام امن و سکون سے سو رہا تھا۔

۲۔ وَ یُنَزِّلُ عَلَیۡکُمۡ: جس صبح کو جنگ بدر ہونا تھی، اس رات بارش ہوئی۔ اس سے مسلمانوں کو کئی ایک فائدے ہوئے۔

۳۔ لِّیُطَہِّرَکُمۡ: ایک یہ کہ مشرکین، بدر کے پانی پر پہلے قابض ہو چکے تھے۔ مسلمانوں کے پاس پانی نہ تھا، بارش سے پانی میسر آیا۔

۴۔ وَ لِیَرۡبِطَ: دوسرا یہ کہ بارش سے سکون اور دلوں کی مضبوطی آئی چونکہ نہا دھو کر انسان میں خود اعتمادی آ جاتی ہے اور تعفن سے بیزاری آتی ہے۔

۵۔ وَ یُثَبِّتَ بِہِ الۡاَقۡدَامَ: تیسرا یہ کہ بارش سے ریت جم گئی، زمین مضبوط ہو گئی اور قدم جم گئے۔ ورنہ بارش سے پہلے ریت پر چلنا پھرنا مشکل ہو رہا تھا۔ چوتھا یہ کہ دشمن نشیبی علاقے میں تھا، اس لیے بارش سے کیچڑ ہو گیا اور دشمن کے لیے چلنا مشکل ہو گیا۔

اہم نکات

۱۔ جنگ جیتنے کے لیے انسان کے اپنے اندر امن ہونا ضروری ہے: اِذۡ یُغَشِّیۡکُمُ النُّعَاسَ اَمَنَۃً ۔

۲۔ وسوسوں سے پاک، مضبوط دل چاہیے۔

۳۔ ثبات قدم کی ضرورت ہے۔

۴۔ میدان جنگ میں موجود ظاہری موانع کو بھی دور کرنا چاہیے۔


آیت 11