آیت 1
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ الانفال

یہ سورۃ المبارکۃ مدنی ہے اور کوفی قرائت کے مطابق ۷۵ آیات پر مشتمل ہے۔ واضح رہے کوفی قرائت سب سے زیادہ مستند ہے چونکہ یہ قرائت عاصم کی ہے۔ عاصم نے یہ قرائت ابو عبد الرحمن سلمی سے اخذ کی ہے اور سلمی نے حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے اخذ کی ہے۔

یہ سورۃ جنگ بدر کے بعد سنہ۲ ہجری میں نازل ہوئی، چنانچہ اس سورہ میں بدر کی تاریخ ساز جنگ کے بارے میں بہت سے نکات بیان ہوئے ہیں۔

اس سورۃ کے مباحث اکثر جنگ بدر اور اس سے پیدا شدہ مسائل کے بارے میں ہیں چونکہ پیش آمدہ واقعات کے روشنی میں قانون سازی آسان ہو جاتی ہے، اس لیے غنائم جنگی کے بارے میں اسلام کا یہ موقف واضح کیا گیا کہ جنگی غنیمت، اسلامی ریاست کی ملکیت ہوتی ہے۔

پھر صلح و جنگ کے بارے میں بھی قانون سازی ہو گئی تاکہ جاہلی تصورات کی جگہ اسلامی، انسان ساز قانون ذہین نشین ہو جائے۔

جنگی اخلاقیات کا ذکر ہے کہ اسلام نے اس تصور کو مسترد کیا کہ ’’جنگ میں ہر کام جائز ہے‘‘۔

مسلمانوں کو یہ باور کرایا کہ جنگ میں فتح حاصل کرنے کے لیے کون سا اسلحہ زیادہ مؤثر ہے۔ آہنی اسلحہ یا آہنی ارادے۔ ارادوں کے آ ہنی ہونے کے لیے تائید غیبی درکار ہوتی ہے اور تائید غیبی کے حصول کے لیے بھی ایمان کی ایک خاص کیفیت درکار ہوتی ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡاَنۡفَالِ ؕ قُلِ الۡاَنۡفَالُ لِلّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ ۚ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ اَصۡلِحُوۡا ذَاتَ بَیۡنِکُمۡ ۪ وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗۤ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ﴿۱﴾

۱۔(اے رسول) لوگ آپ سے انفال کے متعلق پوچھتے ہیں، کہدیجئے:یہ انفال اللہ اور رسول کے ہیں، پس تم لوگ اللہ کا خوف کرو اور باہمی تعلقات مصالحانہ رکھو اور اگر تم مومن ہو تو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔

تشریح کلمات

الۡاَنۡفَالِ:

( ن ف ل ) نفل کی جمع ہے۔ اس کے معنی زائد کے ہیں اور جو واجب کے علاوہ ہو اس کو نفل ، نافلہ کہتے ہیں۔ جنگی غنیمت کو انفال اس لیے کہتے ہیں کہ مسلمان غنیمت کے لیے نہیں ، راہ خدا میں لڑتے ہیں لیکن غنیمت ایک اضافی انعام ہے یا اس لیے ہو سکتا ہے کہ راہ خدا میں جہاد کا صلہ تو ان کو اجر و ثواب کے ذریعے اللہ کے ہاں سے ملے گا لیکن غنیمت دنیا میں ایک اضافی اجر و ثواب ہے۔

تفسیر آیات

شان نزول: مسلمانوں نے بدر میں پہلی مرتبہ جنگ لڑی تھی۔ جنگ سے پیدا شدہ مسائل کے بارے میں اسلام کا کیا مؤقف ہے؟ لڑنے والوں کو اس سے واسطہ نہیں پڑا تھا۔ صرف جاہلیت کے تصورات ذہنوں میں تھے کہ جس نے جو لوٹا وہی اس کا مالک بن گیا۔ چنانچہ کافروں کی شکست کے موقع پر مسلمانوں کے تین گروہ بن گئے تھے:

ایک گروہ کفار کا تعاقب کر رہا تھا۔

دوسرا گروہ رسولؐ کی حفاظت کر رہا تھا۔

تیسرا گروہ مال غنیمت لوٹ رہا تھا۔

یہ تیسرا گروہ عرب کے پرانے جنگی رواج کے تحت اپنے آپ کو اس کا مالک تصور کررہا تھا جب کہ دوسرے گروہ کا کہنا تھا ہم بھی اس میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ ہم نے رسول اللہؐ کی حفاظت کی ہے اور ہمیں خوف تھا کہ کہیں رسول اللہؐ پر دشمن اچانک حملہ نہ کر دے اور پہلے گروہ کا کہنا تھا کہ ہم نے دشمن کو بھگا دیا اور اسے شکست دی۔ ہم اس مال غنیمت میں برابر کے شریک ہیں۔ (مسند احمد بن حنبل ۵: ۳۲۳ میں اس مضمون کی روایت موجود ہے۔)

بعض دیگر روایات میں آیا ہے کہ حضرت عبادہ نے کہا:

ففینا اصحاب بدر نزلت حین اختلفنا فی النفل و ساء ت فیہ اخلاقنا فنزعہ اللہ من ایدینا فجعلہ الی رسول اللہ فقسمہ رسول اللہ بین المسلمین علی السوآء ۔ (محاسن التاویل ۸:۶)

یہ آیت ہم اصحاب بدر کے بارے میں نازل ہوئی جب ہم نے غنیمت کے بارے میں آپس میں اختلاف کیا۔ اس سلسلے میں ہمارے اخلاق بگڑ گئے تھے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے چھین کر رسول اللہؐ کو دیا۔ چنانچہ آپؐ نے مسلمانوں میں برابر تقسیم کیا۔

نیز وَ اَصۡلِحُوۡا ذَاتَ بَیۡنِکُمۡ آپس میں صلح و آشتی قائم رکھو سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت کسی اختلاف کے موقع پر نازل ہوئی ہے۔

انفال کے موارد اور حکم: انفال اگرچہ جنگ بدر کی غنیمت کے بارے میں نازل ہوئی اور سوال بھی بدر کی غنیمت کے بارے میں ہوا تھا تاہم تفسیر میں ایک مسلمہ کلیہ ہے کہ العبرۃ بعموم اللفظ لا بخصوص المورد ۔ لفظ کی تعبیر معتبر ہے، شان نزول کی خصوصیت معتبر نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں جائے سوال یامحل نزول آیت خاص ہو تو لفظی تعبیر کی تخصیص نہیں ہوتی۔ لہٰذا آیت کی تعبیر میں ہر قسم کے انفال یعنی اموال زائد شامل ہیں۔ مثلاً آبادیاں جو متروک ہو چکی ہوں ، پہاڑوں کی چوٹیاں ، جنگل، بادشاہوں کی جاگیریں ، غیر آباد زمینیں ، لاوارث املاک وغیرہ۔ جو بھی کسی کی ملکیت میں نہیں ہے، وہ اللہ اور رسولؐ کی ملکیت ہے۔ یعنی یہ حکومتی ملکیت (سٹیٹ پراپرٹی) ہے۔

لہٰذا جنگی غنیمت اسلامی حکومت کی ملکیت ہے۔ اس کی تقسیم کا اختیار اسلامی حکومت کے قانونی سربراہ کے اختیار میں ہے۔ اس طرح قانون شریعت کے تحت یہ لازم ہو گیا کہ تمام مال غنیمت امامؑ کے حوالے کر دیا جائے۔ اس کے بعد آیہ خمس میں اس مال کی تقسیم کا قانون بتا دیا کہ پانچواں حصہ سرکاری ملکیت میں جائے گا اور باقی چار حصے لڑائی میں شریک فوج میں تقسیم کر دیے جائیں گے۔ دوسرے لفظوں میں جو حصہ کسی سرباز کے حصہ میں آئے، اس کا پانچواں حصہ سرکاری ملکیت میں جائے گا، چار حصے اس کی ذاتی ملکیت ہو گی۔ لہٰذا آیہ انفال اور آیہ خمس میں کوئی تضاد نہیں کہ آیہ خمس کو جس میں چار حصے سرباز کو ملنے کا حکم ہے، ناسخ اور آیۂ انفال جس میں سارا مال اللہ و رسولؐ کے لیے قرار دیا ہے، کو منسوخ سمجھا جائے۔

فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ اَصۡلِحُوۡا ذَاتَ بَیۡنِکُمۡ: تقویٰ کی نصیحت سے اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ اصحاب بدر سے مال غنیمت کے بارے میں تقویٰ کے خلاف کوئی لغزش واقع ہو گئی ہے اور وَ اَصۡلِحُوۡا سے بھی یہی بات ظاہر ہوتی ہے کہ ان میں غنیمت کے بارے میں نزاع واقع ہو گیا تھا۔

وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗۤ: اللہ اور رسول کی اطاعت سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ اور رسول نے جو حکم دیا ہے کہ انفال تمہاری ملکیت نہیں ہے بلکہ اللہ اور رسول کی ملکیت ہے، اس کی اطاعت کرو۔ چنانچہ اس اطاعت کے وقوع پزیر ہونے کی وجہ سے نزاع ختم ہو گیا۔

اہم نکات

۱۔ ہر وہ چیز جس کا کوئی مالک نہ ہو، وہ اسلامی حکومت کی ملکیت ہے: قُلِ الۡاَنۡفَالُ لِلّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ ۔

۲۔ تقویٰ اور آپس میں صلح و آشتی اور اطاعت خدا و رسولؐ ایمان کے ارکان ہیں : فَاتَّقُوا اللّٰہَ۔۔۔ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ۔


آیت 1