آیت 1
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ النباء

اس سورۃ المبارکۃ کا نام النباء، دوسری آیت میں واقع عَنِ النَّبَاِ الۡعَظِیۡمِ سے ماخوذ ہے۔ اس سورہ کو سورۃ عمّ بھی کہتے ہیں۔

آیات کی تعداد مکی و بصری قرائت کے مطابق ۴۱ اور کوفی قرائت کے مطابق چالیس ہے۔ پہلے بھی کئی بار ذکر ہوا ہے کہ کوفی قرائت معتبر ترین قرائت ہے چونکہ یہ قرائت عاصم کے ذریعے حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے۔

اس سورہ مبارکہ کا مضمون اثبات قیامت پر مشتمل ہے اور اس پر موجودہ نظام کائنات اور وسائل حیات سے استدلال کیا گیا ہے۔ یہ طریقۂ استدلال قرآن میں جا بجا اختیار کیا گیا ہے:

اَفَعَیِیۡنَا بِالۡخَلۡقِ الۡاَوَّلِ۔۔۔۔۔ (۵۰ ق:۱۵)

قُلۡ یُحۡیِیۡہَا الَّذِیۡۤ اَنۡشَاَہَاۤ اَوَّلَ مَرَّۃٍ۔۔۔۔۔ (۳۶ یٰسٓ: ۷۹)

وَ لَقَدۡ عَلِمۡتُمُ النَّشۡاَۃَ الۡاُوۡلٰی۔۔۔۔۔ (۵۶ واقعۃ: ۶۲)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

عَمَّ یَتَسَآءَلُوۡنَ ۚ﴿۱﴾

۱۔ یہ لوگ کس چیز کے بارے میں باہم سوال کر رہے ہیں ؟

تفسیر آیات

۱۔ عَمَّ: اصل میں عَنْ مَا ہے۔ عَنْ حرف جر اور مَا اسم استفہام ہے اور جب مَا استفہامیہ پر حرف جر داخل ہوتا ہے تو ما سے الف حذف کر دیا جاتا ہے تاکہ مَا موصولہ اور مَا استفہامیہ میں فرق واضح ہو جائے۔ جیسے: فِیۡمَ اَنۡتَ مِنۡ ذِکۡرٰىہَا ﴿﴾۔ (۷۹ نازعات: ۴۳) فَبِمَ تُبَشِّرُوۡنَ۔ (۱۵ حجر: ۵۴) وغیرہ۔ پھر جب الف حذف ہوگیا تو اس مَ کو عَنْ کے ساتھ ملا دیا۔ پھر عَنْ کا نون ساکن میم کے ساتھ ملا دیا جائے تو ادغام ہوتا ہے۔ اس طرح عن ما سے عَمَّ ہو گیا۔ یعنی کس چیز کے بارے میں۔

۲۔ یَتَسَآءَلُوۡنَ: باہم سوال کر رہے ہیں۔ مشرکین باہم سوال کر رہے تھے ایک تازہ رونما ہونے والی اہم اور قابل توجہ بات کے بارے میں۔

اہم واقعہ یہ رونما ہوا کہ مکہ ہی کے قبائل میں سے ایک قبیلے بنی ہاشم کے خاندان کے ایک فرد نے اپنی نبوت کا اعلان کر دیا۔ اول یہ خود ایک چونکا دینے والا واقعہ تھا، پھر اپنی نبوت کے اعلان کے ساتھ جو پیغام پیش کیا وہ مکہ کے مشرک معاشرے کے لیے مزید چونکا دینے والا تھا۔ وہ پیغام دو اہم ترین باتوں پر مشتمل تھا: ایک یہ کہ معبود صرف ایک اللہ ہے اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس دنیا کی زندگی کے بعد انسانوں کو ایک اور زندگی کے لیے اٹھایا جائے گا جہاں ثواب و عذاب کا فیصلہ ہوگا اور جنت و جہنم کا مسئلہ درپیش ہو گا۔

ان باتوں میں سے کس بات پر یہ لوگ باہم سوال کررہے ہیں؟ آیات کا سیاق بتلاتا ہے کہ وہ قیامت کے بارے میں سوال اٹھا رہے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اگرچہ ان کے معبودوں کو مسترد کر کے ایک ہی معبود کی عبادت کی دعوت اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت دونوں انہیں گراں گزرتی تھیں تاہم قیامت کا مسئلہ وہ ایک تو زیادہ نامعقول سمجھتے تھے اور دوسرے قیامت کا تصور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کے خلاف استعمال کرتے تھے کہ یہ شخص کیسی نامعقول، محال اور لا یعنی بات کرتاہے:

ءَ اِذَا کُنَّا عِظَامًا نَّخِرَۃً ﴿﴾ (۷۹ نازعات: ۱۱)

کیا جب ہم کھوکھلی ہڈیاں ہوچکے ہوں گے؟

مَنۡ یُّحۡیِ الۡعِظَامَ وَ ہِیَ رَمِیۡمٌ﴿﴾ (۳۶ یٰسٓ: ۷۸)

ان ہڈیوں کو خاک ہونے کے بعد کون زندہ کرے گا؟

لہٰذا اصل بات جو قبائل مکہ پر گراں گزر رہی تھی وہ فرزند عبد اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اعلان نبوت تھی کہ اتنا بڑا اور عظیم منصب عبد اللہ کے یتیم کو کیسے مل سکتا ہے۔ اس کے پیچھے ان کی باہمی قبائلی رقابت کار فرما تھی۔ وہ کہتے تھے:

ءَ اُنۡزِلَ عَلَیۡہِ الذِّکۡرُ مِنۡۢ بَیۡنِنَا۔۔۔۔ (۳۸ صٓ: ۸)

کیا ہمارے درمیان اسی پر یہ ذکر نازل کیا گیا؟

بَلۡ عَجِبُوۡۤا اَنۡ جَآءَہُمۡ مُّنۡذِرٌ مِّنۡہُمۡ۔۔۔۔ (۵۰ ق: ۲)

بلکہ انہیں اس بات پر تعجب ہوا کہ خود انہی میں سے ایک تنبیہ کرنے والا ان کے پاس آیا۔

وَ قَالُوۡا لَوۡ لَا نُزِّلَ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنُ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الۡقَرۡیَتَیۡنِ عَظِیۡمٍ﴿﴾ (۴۳ زخرف: ۳۱)

ااور کہتے ہیں: یہ قرآن دونوں بستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہیں کیا گیا؟

ایک منصف انسان کو اس وقت تعجب کی انتہا نہیں رہتی جب یہی خاندانی و قبائلی رقابت اور تعصب ان لوگوں میں اسلام قبول کرنے کے بعد بھی نظر آتا ہے۔ چنانچہ کہنے والے نے کہا:

ان قومکم کرھوا ان تجتمع لکم النبوۃ والخلافۃ فتذھبون فی السماء بذخاو شمخاً۔۔۔۔ (شرح نہج البلاغۃ ابن ابی الحدید ۱: ۱۸۹)

تمہاری قوم نے اس بات کو ناپسند کیا ہے کہ نبوت اور خلافت تمہارے لیے جمع ہوجائیں اگر ایسا ہوا تو تم فخر و سربلندی سے آسمان تک چلے جاؤ گے۔

جب عبد اللٰہ بن زبیر کی مکہ میں حکومت قائم ہوئی اس نے جمعہ کے خطبوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے سے یہ کہہ کر منع کیا کہ اس سے بنی ہاشم کی ناک اونچی ہو جاتی ہے۔


آیت 1