آیت 1
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ الانسان

اس سورۃ مبارکہ کو آیت ہَلۡ اَتٰی عَلَی الۡاِنۡسَانِ۔۔۔۔ میں مذکور لفظ انسان سے سورۃ الۡاِنۡسَانِ کہتے ہیں اور حِیۡنٌ مِّنَ الدَّہۡرِ میں مذکور لفظ الدَّہۡرِ سے سورۃ الدَّہۡرِ بھی کہتے ہیں۔

یہ سورہ جمہور کے نزدیک مدنی ہے۔ اگرچہ حضرت ابن عباس کی ایک روایت میں ہے کہ یہ مکی ہے لیکن یہ روایت معارض ہے اس روایت کے جو خود ابن عباس سے منقول ہے جسے ابن ضرلیس، ابن مردویہ اور بیہقی نے نقل کیا ہے۔ اس میں صریحاً مذکور ہے کہ یہ سورہ مدنی ہے۔

پھر قابل توجہ یہ ہے کہ اس سورۃ میں اسیر کو کھانا کھلانے کا ذکر ہے۔ یہ دلیل ہے کہ سورۃ مدنی ہے چونکہ اسیر بنانے کا عمل ہجرت کے بعد وجود میں آیا ہے۔

چنانچہ تفسیر بیضاوی نے لکھا ہے:

وَّ اَسِیۡرًا یعنی اسراء الکفار فانہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یوتی لاسیر فیدفعہ الی بعض المسلمین فیقول احسن الیہ۔

وَّ اَسِیۡرًا سے مراد کفار کے اسیر ہیں چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کوئی اسیر لایا جاتا تو اسے کسی مسلمان کے حوالے کر دیتے اور فرماتے اس پر احسان کرو۔

ابن کثیر نے ابن عباس سے نقل کیا ہے۔ ابن عباس کہتے ہیں:

کان اسراء ھم یومئذ مشرکین و یشھد لھذا ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم امر اصحابہ یوم بدر ان یکرموا الاساری۔

ان دنوں اسیر، مشرکین ہوتے تھے۔ اس کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے دن اصحاب کو حکم دیا اسیروں پر احسان کرو۔

تفسیر مظہری میں آیا ہے:

بل نفس الایۃ یقتضی کونھا مدنیّۃ لان الاساری لم تکن الا بالمدینۃ لم یکن بمکۃ جھادا ولا اسراً۔

خود آیت یہ تقاضا کرتی ہے کہ یہ مدنی ہے کیونکہ اسیر تو صرف مدینہ میں ہوتے تھے۔ مکہ میں تو نہ جہاد تھا، نہ اسیر۔

اس لیے اکثر مفسرین نے کہا ہے یہاں اسیر سے مراد مشرک اسیر ہے اور یہ بات نہایت واضح ہے کہ مکہ میں مسلمانوں کے ہاتھوں میں مشرک اسیر نہ تھے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

ہَلۡ اَتٰی عَلَی الۡاِنۡسَانِ حِیۡنٌ مِّنَ الدَّہۡرِ لَمۡ یَکُنۡ شَیۡئًا مَّذۡکُوۡرًا﴿۱﴾

۱۔ کیا زمانے میں انسان پر ایسا وقت آیا ہے جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا؟

تفسیر آیات

کیا روئے زمین پر موجود اس انسان پر ایسا وقت نہیں آیا کہ وہ لَمۡ یَکُنۡ یعنی عدم کے مرحلے میں تھا۔ اس کے وجود کے آثار میں سے کوئی اثر موجود نہ تھا۔ درست ہے کہ جسم انسان جن ارضی عناصر سے وجود میں آیا ہے وہ عناصر کرۂ ارض کے اطراف میں منتشر تھے لیکن سوال ان عناصر پر بھی آتا ہے کہ یہ عناصر بھی کسی زمانے میں عدم کی تاریکی میں معدوم اور لَمۡ یَکُنۡ کے مرحلے میں تھے۔ پھر انسان، جسم و روح دونوں سے مرکب ہے۔ روح خاکی نہیں ہے یہ بھی لَمۡ یَکُنۡ شَیۡئًا کے تحت وجود کی روشنی سے ناآشنا تھی۔

حدیث میں آیا ہے:

کان اللّٰہ و لم یکن معہ شیء۔۔۔ (بحار الانوار ۵۴: ۲۳۳)

اللہ اس وقت بھی تھا جب اللہ کے ساتھ کوئی شے موجود نہ تھی۔

بتانا یہ مقصود ہے کہ انسان عدم سے وجود میں لایا گیا ہے۔ یہ سمجھانے کے لیے کہ یہ انسان جب عدم سے وجود میں آیا ہے تو اس کا اعادۂ وجود ممکن ہے۔


آیت 1