آیات 36 - 40
 

اَیَحۡسَبُ الۡاِنۡسَانُ اَنۡ یُّتۡرَکَ سُدًی ﴿ؕ۳۶﴾

۳۶۔ کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ اسے یونہی چھوڑ دیا جائے گا؟

اَلَمۡ یَکُ نُطۡفَۃً مِّنۡ مَّنِیٍّ یُّمۡنٰی ﴿ۙ۳۷﴾

۳۷۔ کیا وہ (رحم میں) ٹپکایا جانے والا منی کا ایک نطفہ نہ تھا؟

ثُمَّ کَانَ عَلَقَۃً فَخَلَقَ فَسَوّٰی ﴿ۙ۳۸﴾

۳۸۔ پھر لوتھڑا بنا پھر (اللہ نے ) اسے خلق کیا پھر اسے معتدل بنایا۔

فَجَعَلَ مِنۡہُ الزَّوۡجَیۡنِ الذَّکَرَ وَ الۡاُنۡثٰی ﴿ؕ۳۹﴾

۳۹۔ پھر اس سے مرد اور عورت کا جوڑا بنایا۔

اَلَیۡسَ ذٰلِکَ بِقٰدِرٍ عَلٰۤی اَنۡ یُّحۡیِۦَ الۡمَوۡتٰی﴿٪۴۰﴾

۴۰۔ کیا اس ذات کو یہ قدرت حاصل نہیں کہ مرنے والوں کو زندہ کرے؟

تشریح کلمات

سُدًی:

( س د د ) مہمل چھوڑنا۔ شتر بے مہار کو اہل سدی کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ اَیَحۡسَبُ الۡاِنۡسَانُ: کیا اس منکر قیامت انسان کا یہ گمان ہے کہ ہم اسے یونہی چھوڑ دیں گے کہ اس کے اعمال کا کوئی مثبت اور منفی نتیجہ نہ ہو گا۔ ایک ظالم اپنا ہاتھ بے گناہ لوگوں کے خون سے رنگین کرتا ہے، دوسرا لوگوں کا مال غصب کر کے کھاتا ہے۔ تیسرا شخص لوگوں کو سہارا دیتا ہے۔ ان پر احسان کرتا ہے۔ کیا ان دونوں کرداروں کا کوئی نتیجہ نہیں ہے۔ انسان اس دنیا میں بیہودہ پیدا ہوا ہے:

اَفَحَسِبۡتُمۡ اَنَّمَا خَلَقۡنٰکُمۡ عَبَثًا وَّ اَنَّکُمۡ اِلَیۡنَا لَا تُرۡجَعُوۡنَ﴿۱۱۵﴾ (۲۳ مومنون: ۱۱۵)

کیا تم نے یہ خیال کیا تھا کہ ہم نے تمہیں عبث خلق کیا ہے اور تم ہماری طرف پلٹائے نہیں جاؤ گے؟

کہ ظالم اپنا ہاتھ مظلوموں کے خون سے رنگین کرے اور مظلوم ظلم سہ کر جان دے دے۔ دونوں کا ایک جیسا انجام ہو گا؟ انسان زمین پر بے مقصد نہیں آیا۔ وہ نیچر (طبیعت) کے ہاتھوں کھلونا نہیں ہے کہ بلا مقصد دکھ درد سہ کر نابود ہو جائے۔

۲۔ اَلَمۡ یَکُ نُطۡفَۃً: جو لوگ موت کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے کو ناممکن تصور کرتے ہیں ان کے لیے فرمایا: جس ذات نے اس بوند سے انسان بنایا جو موجود نہ تھی۔ اس کے لیے ایک موجود ہڈی سے انسان بنانا کیا مشکل ہے جب کہ ہڈی کے ذرات میں انسان کی مکمل خاصیت محفوظ رہتی ہے۔ تفصیل کے لیے سورہ ق آیت ۴ وَ عِنۡدَنَا کِتٰبٌ حَفِیۡظٌ ملاحظہ فرمائیں۔

۳۔ ثُمَّ کَانَ عَلَقَۃً: ایک بوند سے گوشت کے لوتھڑے میں تمہیں بدل دیا۔ فَسَوّٰی پھر اس سے تمہاری تخلیق ہوئی۔ تفصیل کے لیے سورہ مومنون آیت ۱۴ ملاحظہ فرمائیں۔

۴۔ فَجَعَلَ مِنۡہُ الزَّوۡجَیۡنِ: پھر بقائے نسل انسانی کے لیے انسان کو مرد و زن پر مشتمل بنا دیا۔

۵۔ اَلَیۡسَ ذٰلِکَ بِقٰدِرٍ: کیا یہ ربْ جس نے ایک بوند سے انسان پیدا کیا، وہ اس ہڈی کے ذرات سے انسان کو دوبارہ زندہ نہیں کر سکتا۔ دوسرے لفظوں میں جو ذات پہلی بار حیات، عدم سے وجود میں لائی ہے، کیا وہ اسی قدرت سے اعادہ حیات پر قادر نہیں ہے؟ سائنسی تجربات کی روشنی میں بھی حیات باقی رہتی ہے خواہ اسے سینکڑوں بلکہ ہزاروں درجہ حرارت سے گزارا جائے اور حالات اور فضا سازگار ہونے پر اس کا اعادہ ہو جاتا ہے۔


آیات 36 - 40