آیت 2
 

اِنَّا خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ اَمۡشَاجٍ ٭ۖ نَّبۡتَلِیۡہِ فَجَعَلۡنٰہُ سَمِیۡعًۢا بَصِیۡرًا﴿۲﴾

۲۔ ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا کہ اسے آزمائیں، پس ہم نے اسے سننے والا، دیکھنے والا بنایا۔

تشریح کلمات

اَمۡشَاجٍ:

( م ش ج ) دو چیزوں کے باہم مخلوط ہونے کو کہتے ہیں۔ اَمۡشَاجٍ جمع ہے مشج کی۔ اہل لغت کہتے ہیں اس کا مفرد استعمال میں نہیں ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ اَمۡشَاجٍ: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا ہے۔ نُّطۡفَۃٍ اَمۡشَاجٍ کے بارے میں ہم نے مقدمہ تفسیر صفحہ ۸۸ میں تفصیل بیان کی ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے:

سیل (Cell) کی دو قسمیں ہیں: جسمانی اور جنسی۔ جسمانی سیل کامرکزہ ۴۶ کرموزومز پر مشتمل ہوتا ہے جب کہ جنسی سیل کا مرکزہ صرف ۲۳ کرموزومز پر مشتمل ہے یعنی جسمانی سیل کا نصف۔ چنانچہ انسانی تخلیق کے لیے ایک مکمل سیل کی تشکیل کے لیے مرد و زن میں سے ہر ایک ۲۳ کروموزومز فراہم کرتے ہیں جن سے ایک مکمل سیل بہ اصطلاح قرآن نُّطۡفَۃٍ اَمۡشَاجٍ مخلوط نطفہ وجود میں آتا ہے۔ یعنی مرد کا جرثومہ اور عورت کا تخم دونوں مل کر ایک مکمل سیل تشکیل دیتے ہیں۔

۲۔ نَّبۡتَلِیۡہِ: اس فقرے کی دو تفسیریں ہیں: ایک یہ کہ ہم نے اس انسان کو نُّطۡفَۃٍ اَمۡشَاجٍ (مخلوط نطفہ) سے مختلف حالتوں میں بدل کر سمیع و بصیر ہونے کے قابل بنا دیا۔ اس تفسیر کے مطابق نَّبۡتَلِیۡہِ تبدل کے معنوں میں ہے۔ دوسری تفسیر میں نَّبۡتَلِیۡہِ کے معنی آزمائش اور امتحان کے ہیں۔ یعنی ہم نے انسان کو نُّطۡفَۃٍ اَمۡشَاجٍ سے قابل آزمائش و امتحان بنا دیا۔

پہلی تفسیر زیادہ قرین واقع معلوم ہوتی ہے چونکہ سمیع و بصیر کو فاء تفریع (بیان نتیجہ) کے طور پر ذکر فرمایا ہے کہ نطفہ سے لوتھڑے، پھر بوٹی، پھر ہڈی بننے، پھر ہڈی پر گوشت چڑھانے کے مراحل میں تبدیل ہونے کا نتیجہ یہ ہوا کہ خلق آخر یعنی سمیع و بصیر انسان بن گیا۔


آیت 2