آیات 31 - 32
 

یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ خُذُوۡا زِیۡنَتَکُمۡ عِنۡدَ کُلِّ مَسۡجِدٍ وَّ کُلُوۡا وَ اشۡرَبُوۡا وَ لَا تُسۡرِفُوۡا ۚ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الۡمُسۡرِفِیۡنَ﴿٪۳۱﴾

۳۱۔ اے بنی آدم!ہر عبادت کے وقت اپنی زینت(لباس)کے ساتھ رہو اور کھاؤ اور پیو مگر اسراف نہ کرو،اللہ اسراف کرنے والوں کو یقینا دوست نہیں رکھتا۔

قُلۡ مَنۡ حَرَّمَ زِیۡنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیۡۤ اَخۡرَجَ لِعِبَادِہٖ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزۡقِ ؕ قُلۡ ہِیَ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا خَالِصَۃً یَّوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّعۡلَمُوۡنَ﴿۳۲﴾

۳۲۔کہدیجئے: اللہ کی اس زینت کو جو اس نے اپنے بندوں کے لیے نکالی اور پاک رزق کو کس نے حرام کیا ؟ کہدیجئے: یہ چیزیں دنیاوی زندگی میں بھی ایمان والوں کے لیے ہیں اور قیامت کے دن تو خالصتاً انہی کے لیے ہوں گی، ہم اسی طرح اہل علم کے لیے آیات کو کھول کر بیان کرتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ خُذُوۡا زِیۡنَتَکُمۡ: یہ بات ممکن نہیں ہے کہ اللہ دنیا کو زیب و زینت کی چیزوں اور پاکیزہ اشیاء سے پر کر دے، پھر ان کو اپنے بندوں کے لیے حرام کر دے۔ اگر کوئی شریعت ان چیزوں کو حرام قرار دے تو یہ فطرت سے متصادم ہونے کی وجہ سے خود باطل ثابت ہوتی ہے۔ اسلامی شریعت کی حقانیت پر قائم دلائل و آیات میں سے ایک یہی بات ہے کہ یہ شریعت کسی حکم میں بھی فطرت کے ساتھ متصادم نہیں ہے۔ چنانچہ یہ بات ممکن نہیں ہے کہ اسلام صاف ستھرا اور پر کشش رہنے کی نصیحت نہ کرے، ہر قسم کی قابل نفرت اور کراہت کی چیزوں سے پرہیز کرنے کا حکم نہ دے۔ اسی لیے قرآن کا ارشاد ہو رہا ہے: عبادت گاہوں میں جاؤ تو پرکشش اور پر وقار طریقے سے جاؤ۔ اللہ نے کسی قسم کی زینت کو حرام قرار نہیں دیا۔ اسلام ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ انسان بد زیب اور بد نما نظر آئے۔ اس نے انسان کو تکویناً و فطرتاً عزت و تکریم سے نوازا ہے:

لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ ۔ ( ۹۵ التین: ۴)

بتحقیق ہم نے انسان کو بہترین اعتدال میں پیدا کیا۔

اور وہ تشریعاً بھی باعزت اور باوقار دیکھنا چاہتا ہے۔

اسی سے ہر ایسا لباس پہننا حرام ہے جو باعث اہانت ہو، جسے فقہی اصطلاح میں ’’لباس شہرت‘‘ کہتے ہیں۔

۲۔ وَّ کُلُوۡا وَ اشۡرَبُوۡا وَ لَا تُسۡرِفُوۡا: ان آیات میں کھانے پینے سے متعلق دو اہم ترین اصول بیان کیے ہیں: ایک یہ کہ اسراف حرام ہے۔ دوسرا یہ کہ طیبات حلال ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ کیا کھانا ہے اور کتنا کھاناہے۔

۳۔ وَ لَا تُسۡرِفُوۡا: یہ مختصر جملہ بتاتا ہے کہ کتنا کھانا ہے۔ کسی چیزکے حلال ہونے کے لیے سب سے زیادہ اس کی ضرورت ہے۔ لہٰذا انسانی جسم کو زندہ اورمتحرک رکھنے کے لیے جتنی غذا کی ضرورت ہے، اس کا کھانا مباح ہے اور کبھی واجب ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ قدرت ہمارے جسم میں کسی چیز کی ضرورت ودیعت کرے، پھر اس پر پابندی لگائے اور ہمارے وجود کے اندر کسی چیز کی خواہش رکھے، پھر اس خواہش کو پوری کرنے کی صورت نہ چھوڑے۔ مثلاً ممکن نہیں کہ انسان کو پیاس لگے اور پانی موجود نہ ہو۔ بھوک لگے، غذا موجود نہ ہو۔ لہٰذا پیاس سے جہاں پانی کے وجود کا علم ہوتا ہے، وہا ں اس کے مباح ہونے کا علم بھی ہوتا ہے اور ضرورت ان تمام باتوں کی بنیاد ہے۔ ضرورت ہی کی وجہ سے کھانے پینے کی چیزیں گوارا ہوتی ہیں، جسم کے لیے مفید ہوتی ہیں، نظام بدن کے ساتھ سازگار ہوتی ہیں اور نتیجے کے طور پر بدن سالم رہتا ہے۔

اگر کوئی چیز ضرورت کی بنیاد پر نہیں بلکہ ضرورت سے زیادہ کھا پی لے تو یہ اس نظام کی خلاف ورزی ہے، جس نظام کے تحت اس کا وجود قائم ہے۔ یہ اس ماحول سے خارج ہے، جس میں یہ پیدا ہوا ہے اور اس راستے سے انحراف ہے، جس راستے کو قدرت نے اس کے لیے منتخب کیا ہے۔ اسراف خلاف ورزی ہے۔ اسراف ظلم ہے اپنی جان پر، اپنے جسم پر، اپنی اقتصاد پر اور اپنے ملک پر۔ بالآخر پوری انسانیت پر ظلم ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے اسراف کی یہ تعریف روایت ہوئی ہے :

اِنَّمَا الْاِسْرَافُ فِیمَا اَفْسَدَ الْمَالَ وَ اَضَرَّ بِالْبَدَنِ ۔۔۔۔ (اصو ل الکافی ۴: ۵۳۔ المیزان)

اسراف یہ ہے کہ مال کا ضیاع ہو اور بدن کا ضرر۔

۴۔ قُلۡ مَنۡ حَرَّمَ: کس نے حرام کیا اس زیب و زینت کو جو اللہ نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کی ہے۔ نہ اللہ کے علاوہ کوئی حرام کرنے کا مجاز ہے، نہ ہی یہ چیزیں اللہ کے بندوں کے علاوہ کسی اور کے لیے پیدا کی ہیں تو پھر اللہ کی سرزمین میں موجود چیزوں سے فائدہ اٹھانے میں کوئی تامل ہونا چاہیے؟

۵۔ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزۡقِ: الطیب ۔ جو انسانی طبع و مزاج کے ساتھ موافق ہو۔ راغب کہتے ہیں کہ طیب اسے کہا جاتا ہے جس سے انسان کے حواس بھی لذت یاب ہوں اور نفس بھی۔ شریعت نے ان چیزوں کو حلال کیا ہے جو انسانی مزاج کے ساتھ موافق ہیں، جن سے جسم فعال اور نفس پاک رہتا ہے اور ان چیزوں کو حرام قرار دیا ہے جو انسانی مزا ج کے لیے مناسب اور موافق نہیں ہیں۔

۶۔ قُلۡ ہِیَ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا: کہدیجیے یہ زینت اور طیبات دنیا میں ایمان والوں کے لیے بھی ہیں اور آخرت میں صرف اہل ایمان کے لیے مختص ہیں:

یٰۤاَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوۡا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعۡمَلُوۡا صَالِحًا ۔۔۔۔ (۲۳ مومنون: ۵۱)

اے پیغمبرو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور عمل صالح بجا لاؤ۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے:

المَعِدَۃُ بَیْتُ الدَّائِ وَ الْحِمْیَۃُ رَأْسُ الدَّوَائِ وَ اَعْطِ کُلَّ بَدَنٍ مَا عُوِّدَتہ ۔ (عوالی اللآلی ۲: ۳۰)

معدہ تمام امراض کا گڑھ ہے۔ فاقہ ہر مرض کی دوا ہے۔ ہر جسم کو وہ چیز فراہم کرو جس کی تو نے عادت ڈالی ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

خُذُوا زِینَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ۔ قال فی العیدین والجمعۃ ۔ ۳ ؎

نماز جمعہ اور نماز عید کے لیے اچھے کپڑے زیب تن کرو۔

روایت ہے کہ حضرت امام حسن علیہ السلام پر لباس فاخرہ پہننے پر اعتراض ہوا تو فرمایا:

اِنَّ اللہَ جَمِیلٌ یُحِبُ الْجَمَالَ فَاَتَجَمَّلُ لِرَبِّی وَ ہُوَ یَقُولُ:خُذُوۡا زِیۡنَتَکُمۡ عِنۡدَ کُلِّ مَسۡجِدٍ فَاحِبُّ اَنْ اَلْبَسَ اَجْمَلَ ثِیَابِی ۔ (اصول الکافی ۳ : ۴۲۴)

اللہ جمال کا مالک ہے، جمال کو دوست رکھتا ہے۔ لہٰذا میں اپنے رب کے لیے جمالیات کو اپناتا ہوں وہ فرماتا ہے: خُذُوۡا زِیۡنَتَکُمۡ عِنۡدَ کُلِّ مَسۡجِدٍ ، اس لیے میں عمدہ کپڑے پہننا پسند کرتا ہوں۔

حضرت علی علیہ السلام سے ایک طویل حدیث میں مروی ہے:

واعلموا یا عباد اللہ ان المتقین حازوا عاجل الخیر و آجلہ۔ شارکوا اہل الدنیا فی دنیا ھم ولم یشارکھم اہل الدنیا فی آخرتہم ۔ (مستدرک الوسائل ۱۱: ۲۶۶) (وسائل الشیعۃ ۴: ۴۵۵)

اللہ کے بندو! تمہیں علم ہونا چاہیے اہل تقویٰ دنیا و آخرت دونوں کی بھلائی جمع کر لیتے ہیں۔ وہ اہل دنیا کی دنیا میں شرکت کرتے ہیں لیکن اہل دنیا، اہل تقویٰ کی آخرت میں شریک نہیں ہوتے۔

اہم نکات

۱۔ مؤمن کے لیے خیر دنیا و آخرت جمع ہو سکتی ہیں، جیساکہ بعض دیگر لوگ خسر الدنیا و الآخرہ ہوتے ہیں۔

۲۔ نعمتوں کی فراوانی دنیا میں مؤمن و کافر دونوں کے لیے ہو سکتی ہے لیکن آخرت میں مؤمن کے لیے خاص ہے: خَالِصَۃً یَّوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ۔۔۔۔


آیات 31 - 32