آیات 29 - 30
 

قُلۡ اَمَرَ رَبِّیۡ بِالۡقِسۡطِ ۟ وَ اَقِیۡمُوۡا وُجُوۡہَکُمۡ عِنۡدَ کُلِّ مَسۡجِدٍ وَّ ادۡعُوۡہُ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ۬ؕ کَمَا بَدَاَکُمۡ تَعُوۡدُوۡنَ ﴿ؕ۲۹﴾

۲۹۔کہدیجئے: میرے رب نے مجھے انصاف کا حکم دیا ہے اور یہ کہ ہر عبادت کے وقت تم اپنی توجہ مرکوز رکھو اور اس کے مخلص فرمانبردار بن کر اسے پکارو، جس طرح اس نے تمہیں ابتدا میں پیدا کیا ہے اسی طرح پھر پیدا ہو جاؤ گے۔

فَرِیۡقًا ہَدٰی وَ فَرِیۡقًا حَقَّ عَلَیۡہِمُ الضَّلٰلَۃُ ؕ اِنَّہُمُ اتَّخَذُوا الشَّیٰطِیۡنَ اَوۡلِیَآءَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَ یَحۡسَبُوۡنَ اَنَّہُمۡ مُّہۡتَدُوۡنَ﴿۳۰﴾

۳۰۔ (اللہ) نے ایک گروہ کو ہدایت دے دی ہے اور دوسرے گروہ پر گمراہی پیوست ہو چکی ہے، ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر شیاطین کو اپنا آقا بنا لیا ہے اور (بزعم خود) یہ سمجھتے ہیں کہ ہدایت یافتہ ہیں۔

تشریح کلمات

قسط:

( ق س ط ) قسط عدل اور جور، دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ قسط اس حصے کو کہتے ہیں جو انصاف کے ساتھ مل جاتا ہے۔ عدل کے ساتھ دوسروں کا حصہ دینا انصاف ہے اور دوسروں کا حصہ لینا جور ہے۔

تفسیر آیات

سلسلۂ کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بیہودگی اور بے حیائی کا نہیں بلکہ درج ذیل دستور کا حکم دیتا ہے:

۱۔ قُلۡ اَمَرَ رَبِّیۡ بِالۡقِسۡطِ عدل و انصاف قائم کرو۔

۲۔ وَ اَقِیۡمُوۡا: عبادت میں اپنی پوری توجہ مبذول رکھو۔ بے اعتنائی اور سہل انگاری کے ساتھ بجا لائی جانے والی عبادت بے جان ہوتی ہے۔ وَ اَقِیۡمُوۡا: قائم کرو، یعنی حق ادا کرو، وُجُوۡہَکُمۡ: اپنی پوری توجہ کا، عِنۡدَ کُلِّ مَسۡجِدٍ ہر مسجد میں عبادت کے وقت۔ یعنی ہر عبادت کے وقت اپنی پوری توجہ قائم رکھو۔ لیکن روایت میں عِنۡدَ کُلِّ مَسۡجِدٍ کے بارے میں آیا ہے:

مساجد محدثۃ فامروا ان یقیموا وجوھہم شطر المسجد الحرام ۔ (التھذیب۔ ۲: ۴۳)

اس سے مراد جدید التاسیس مساجد ہیں انہیں حکم ہوا ہے کہ وہ اپنے چہرے مسجد الحرام کی طرف کریں۔

اگرچہ آیت مکی ہے لیکن اجمال ہے۔ اس کا تفصیلی حکم مدینہ میں تحویل قبلہ کے موقع پر آیا۔

۳۔ وَّ ادۡعُوۡہُ مُخۡلِصِیۡنَ: اللہ کو پکارو تو اس حالت میں پکارو کہ قولاً و عملاً صرف اسی کے دین کے پابند رہو اور فرمانبرادری میں خلوص رکھو کہ خالصتاً اللہ کی ذات کو لائق عبادت و اطاعت سمجھ کر اس کی فرمانبرداری کرو۔ کسی غیر اللہ کی رضامندی کا شائبہ تک اس کی فرمانبرداری میں نہ ہو۔

۴۔ کَمَا بَدَاَکُمۡ تَعُوۡدُوۡنَ: آخرت کی حیات ابدی پر بھی ایمان رکھو کہ وہ اللہ جس نے تم کو ابتدا ہی میں نیستی سے پیدا کیا، دوبارہ پیدا کرئے گا۔ جس طرح تم دنیا میں بے بس پیدا ہوئے تھے، آخرت میں بھی جب اٹھائے جاؤ گے، بے بس ہو گے یا جس طرح تم پہلی بار مٹی سے پیدا ہوئے، دوبارہ اسی مٹی سے اٹھائے جاؤ گے۔

۵۔ فَرِیۡقًا ہَدٰی: تو تم دو گروہوں میں بٹ گئے۔ ایک ہدایت پر، دوسرا گمراہی پر۔ قیامت کے دن بھی ایسا ہی ہو گا۔ ایک گروہ ہدایت یافتہ لوگ ہوں گے اور دوسرا گروہ گمراہ لوگ ہوں گے۔

۶۔ اِنَّہُمُ اتَّخَذُوا الشَّیٰطِیۡنَ اَوۡلِیَآءَ: گمراہی کی وجہ شیطان کا ان پر تسلط ہے۔

۷۔ وَ یَحۡسَبُوۡنَ اَنَّہُمۡ مُّہۡتَدُوۡنَ: وہ اپنے آپ کو ہدایت یافتہ سمجھتے ہیں۔ ان کی گمراہی کا اصل محرک یہی جہل مرکب ہے۔ کیونکہ اگر انسان کو یہ احساس ہو کہ میں حق پر نہیں ہوں یا اپنے حق پر ہونے کے بارے میں شک ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ حق کا تصور اس کے صفحہ ذہن سے نہیں مٹا ہے۔ کسی دن وہ حق کی طرف آ سکتا ہے لیکن اگر وہ اسی باطل کو حق سمجھتا ہے تو وہ کبھی حق کی طرف نہیں آ سکتا۔

اہم نکات

۱۔ قبول اعمال اور رضائے رب کے لیے خلوص نیت شرط ہے: مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ۔۔۔۔

۲۔ اجتماعی اعتبار سے عدل و انصاف پر قائم ہو۔ انفرادی اعتبار سے عبادت میں یکسوئی رکھتا ہو۔ یہی ایک جامع الصفات مسلم کی علامت ہے: اَمَرَ رَبِّیۡ بِالۡقِسۡطِ ۟ وَ اَقِیۡمُوۡا وُجُوۡہَکُمۡ عِنۡدَ کُلِّ مَسۡجِدٍ ۔۔۔۔


آیات 29 - 30