آیات 1 - 2
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۂ الاعراف

الاعراف : اس سورہ کا نام الاعراف اس لیے ہے کہ آیت ۴۶۔ ۴۷ میں اعراف کا ذکر آیا ہے۔ اعراف جنت اور جہنم کے درمیان ایک اونچی جگہ کا نام ہے، جہاں کچھ ہستیاں اہل جنت اور اہل جہنم دونوں کا مشاہدہ کریں گی۔

زمانہ نزول

ممکن ہے سورۂ اعراف، سورۂ انعام سے پہلے نازل ہوا ہو۔ چنانچہ سورۂ انعام میں فرمایا:

قُلۡ لَّاۤ اَجِدُ فِیۡ مَاۤ اُوۡحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطۡعَمُہٗۤ اِلَّاۤ اَنۡ یَّکُوۡنَ مَیۡتَۃً اَوۡ دَمًا مَّسۡفُوۡحًا اَوۡ لَحۡمَ خِنۡزِیۡرٍ فَاِنَّہٗ رِجۡسٌ اَوۡ فِسۡقًا اُہِلَّ لِغَیۡرِ اللّٰہِ بِہٖ ۔۔۔۔ (۶ انعام : ۱۴۵)

کہدیجیے:جو وحی میرے پاس آئی ہے اس میں کوئی چیز ایسی نہیں پاتا جو کھانے والے پر حرام ہو مگر یہ کہ مردار ہو یا بہتا ہوا خون ہو یا سور کا گوشت کیونکہ یہ ناپاک ہیں یا ناجائز ذبیحہ جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو ۔۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے ان چیزوں کے علاوہ باقی اشیاء کی حلیت کا حکم آ چکا تھا اور وہ سورۂ اعراف کی یہ آیت ہو سکتی ہے:

قُلۡ مَنۡ حَرَّمَ زِیۡنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیۡۤ اَخۡرَجَ لِعِبَادِہٖ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزۡقِ ۔۔۔ (۷ اعراف : ۳۲)

کہدیجیے: اللہ کی اس زینت کو جو اس نے اپنے بندوں کے لیے نکالی اور پاک رزق کو کس نے حرام کیا ؟

چنانچہ اس سورہ کے احکام زیادہ مختصر اور اجمال کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ جیساکہ بیانِ احکام میں شارع مقدس کا یہی طریقہ رہا ہے کہ احکام کو تدریجاً اجمال کے بعد تفصیل سے بیان فرمایا کرتا ہے اور بعض روایات میں بھی آیا ہے کہ سورۂ اعراف پہلے نازل ہوا ہے۔

زمانہ نزول

قرآنی سورتوں میں سے ہر سورہ اپنی جگہ جدا تشخص رکھتا ہے اور ہر سورہ ایک خصوصیت کا حامل ہے، جب کہ مقصداور منزل ایک ہی ہے۔ چنانچہ سورہ انعام اور سورہ اعراف دونوں مکی ہیں۔ دونوں ایک جیسے ماحول اور ایک جیسے حالات میں نازل ہوئے اور دونوں سورتوں کا موضوع اور روئے سخن بھی ایک ہے یعنی توحید۔ اس کے باوجود سورۂ انعام توحید پر منطقی دلائل پیش کرتا ہے، جب کہ سورۂ اعراف دعوت توحید کے تاریخی حقائق بیان کرتا ہے۔ شاید طبعی ترتیب بھی یہی ہے کہ پہلے دعوت کی تاریخی شہادتیں پیش کریں، پھر بعد میں اس کی معقولیت اور حقانیت پر دلیل پیش کی جائے۔

یہ سورہ، توحید کی تاریخ کا بیان تخلیق آدم کے وقت سے شروع کرتا ہے۔ چنانچہ تخلیق آدم کے وقت پوری نسل آدم سے اپنی ربوبیت کی شہادت لی۔ فرمایا:

وَ اِذۡ اَخَذَ رَبُّکَ مِنۡۢ بَنِیۡۤ اٰدَمَ مِنۡ ظُہُوۡرِہِمۡ ذُرِّیَّتَہُمۡ وَ اَشۡہَدَہُمۡ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ ۚ اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ ؕ قَالُوۡا بَلٰی ۚۛ شَہِدۡنَا ۔۔۔۔ (۷ اعراف : ۱۷۲)

اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور ان پر خود انہیں گواہ بنا کر (پوچھا تھا:) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے کہا تھا: ہاں! (تو ہمارا رب ہے) ہم اس کی گواہی دیتے ہیں۔

آدمؑ و ابلیس کا واقعہ بیان ہوتا ہے جو اس توحیدی تاریخ کا اہم ترین واقعہ ہے۔ اس کاروان کے اہم ارکان نوح، ہود، صالح، لوط ، شعیب اور موسیٰ علیہم السلام کا ذکر ہے اور ان سب کی آواز یہ تھی:

یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ ۔۔۔۔ (۷ اعراف : ۵۹ )

اے میری قوم! تم اللہ ہی کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے۔۔۔۔

تاریخ توحید کے بیان کے ساتھ اس کے میر کاروان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی یہ بتایا جا رہا ہے کہ جو سلوک یہ مشرک قوم آپؐ کے ساتھ کر رہی ہے، ایسا ہی سلوک آپؐسے پہلے قومیں اپنے رسولوں کے ساتھ کرتی رہی ہیں اور وہ اپنے برے انجام کو پہنچ چکی ہیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

الٓـمّٓصٓ ۚ﴿۱﴾

۱۔ الف لام میم صاد۔

کِتٰبٌ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ فَلَا یَکُنۡ فِیۡ صَدۡرِکَ حَرَجٌ مِّنۡہُ لِتُنۡذِرَ بِہٖ وَ ذِکۡرٰی لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۲﴾

۲۔ یہ کتاب آپ پر (اس لیے ) نازل کی گئی ہے کہ آپ اس سے لوگوں کو تنبیہ کریں اور اہل ایمان کے لیے نصیحت ہو پس آپ کو اس سے کسی قسم کی دل تنگی محسوس نہیں ہونی چاہیے۔

تفسیر آیات

یہ کتاب ایک ایسا پیغام لے کر نازل ہوئی ہے جو اس وقت کے لوگوں کی خواہشات، عقائد و نظریات، روایات اور دیگر مفادات کا مخالف ہے اور ایک ایسی قوم تک یہ پیغام پہنچاتی ہے جو تمام انسانی، اخلاقی اور اجتماعی قدروں سے نابلد ایک نہایت معاند اور جھگڑالو ہے۔ جیساکہ ارشاد ہے:

فَاِنَّمَا یَسَّرۡنٰہُ بِلِسَانِکَ لِتُبَشِّرَ بِہِ الۡمُتَّقِیۡنَ وَ تُنۡذِرَ بِہٖ قَوۡمًا لُّدًّا (۱۹ مریم : ۹۷)

(اے رسول!) پس ہم نے یہ قرآن آپ کی زبان میں یقینا آسان کیا ہے تاکہ آپ اس سے صاحبان تقویٰ کو بشارت دیں اور جھگڑالو قوم کی تنبیہ کریں۔

اس بدتہذیب اور جھگڑالو قوم کا سدھارنا اور ان کی تربیت کرنا ایک نہایت مشکل کام تھا۔ اس وجہ سے دوسری جگہ فرمایا:

وَ لَقَدۡ نَعۡلَمُ اَنَّکَ یَضِیۡقُ صَدۡرُکَ بِمَا یَقُوۡلُوۡنَ (۱۵ حجر: ۹۷)

اور بتحقیق ہمیں علم ہے کہ یہ جو کچھ کہ رہے ہیں اس سے آپ یقینا دل تنگ ہو رہے ہیں۔

اس آیت میں ارشاد ہوا :

فَلَا یَکُنۡ فِیۡ صَدۡرِکَ حَرَجٌ (۷ اعراف : ۲)

پس آپ کو اس سے کسی قسم کی دل تنگی محسوس نہیں ہونی چاہیے۔

ایک اور جگہ قرآن میں فرمایا:

اَلَمۡ نَشۡرَحۡ لَکَ صَدۡرَکَ (۹۴ الم نشرح : ۱)

کیا ہم نے آپ کے لیے آپ کا سینہ کشادہ نہیں کیا۔

اس شرح صدر سے حضورؐ نے اس قول ثقیل کا تحمل فرمایا:

اِنَّا سَنُلۡقِیۡ عَلَیۡکَ قَوۡلًا ثَقِیۡلًا (۷۳ مزمل : ۵)

عنقریب آپ پر ہم ایک بھاری حکم (کا بوجھ) ڈالنے والے ہیں۔

اس بدو، ناخواندہ اور ہٹ دھرم قوم میں ایسا دستور اور نظام حیات نافذ فرمایا جس سے دنیا نے تمدن سیکھا۔ انسانی اور اخلاقی قدریں سیکھیں۔

اہم نکات

۱۔ پیغام اس قدر سنگین تھاکہ وحی الٰہی تحمل کرنے والا عظیم اور طاقتور قلب بھی تنگ پڑ جاتا تھا۔

۲۔ مؤمن کے لیے یاددہانی، ذِکۡرٰی اور غیر مؤمن کے لیے انذار ، انجام بد سے آگاہ کرنا رسولؐ کی رسالت کا خلاصہ ہے۔


آیات 1 - 2