آیات 1 - 3
 

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

سورۃ الحاقۃ

اس سورۃ مبارکہ کا نام ابتدائی آیات میں وارد لفظ اَلۡحَآقَّۃُ سے موسوم ہے۔

یہ سورۃ بالاتفاق مکی ہے۔ آیات کی تعداد بصری قرائت کے مطابق ۵۱ اور کوفی قرائت کے مطابق ۵۲ ہے چونکہ کوفی قرائت میں اَلۡحَآقَّۃُ کو مستقل آیت شمار کیا ہے۔

سورۃ مبارکہ کے مضامین درج ذیل ہیں:

۱۔ ابتدا میں تباہ شدہ امتوں کا ذکر ہے جنہوں نے انبیاء علیہم السلام کی تکذیب کی تھی۔

۲۔ آخرت کے حالات پر مشتمل ہیں۔ کچھ اصحاب یمین اور کچھ اصحاب شمال کے بارے میں ہیں۔

۳۔ تیسرا مضمون قرآن کی حقانیت سے متعلق ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلۡحَآقَّۃُ ۙ﴿۱﴾

۱۔ حتمی وقوع پذیر۔

مَا الۡحَآقَّۃُ ۚ﴿۲﴾

۲۔وہ حتمی وقوع پذیر کیا ہے؟

وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا الۡحَآقَّۃُ ؕ﴿۳﴾

۳۔ اور آپ کو کس چیز نے بتایا کہ وہ حتمی وقوع پذیر کیا ہے؟

تفسیر آیات

۱۔ اَلۡحَآقَّۃُ: حتمی اور یقینی وقوع پذیر یعنی قیامت، جس کا آنا حتمی ہے۔

وَّ اَنَّ السَّاعَۃَ اٰتِیَۃٌ لَّا رَیۡبَ فِیۡہَا۔۔۔۔ (۲۲ حج:۷)

اور یہ کہ قیامت آنے والی ہے جس میں کوئی شک نہیں۔

مشرکین مکہ نہ صرف قیامت کے منکر تھے بلکہ اسے ناممکن سمجھتے اور اس کا مذاق اڑاتے تھے۔ ایسے منکروں کے لیے یہ اسلوب کلام اختیار کیا گیا کہ جس شد و مد سے وہ منکر تھے اسی شد و مد سے اسے پیش کیا جا رہا ہے۔

۲۔ مَا الۡحَآقَّۃُ: حاقہ کیا ہے۔ یعنی حتمی اور یقینی وقوع پذیر کیا ہے؟ قیامت کی ہولناکی اور اس کی عظیم اہمیت بیان کرنے کے لیے سوالیہ جملہ ہے۔ جیسے ہم ایک چیز کی اہمیت بتانا چاہتے ہیں تو کہتے ہیں: آپ کو علم ہے وہ کیا ہے؟

۳۔ وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا الۡحَآقَّۃُ: اور آپ کو کس چیز نے بتایا کہ حاقہ کیا چیز ہے؟

رسول اللہ کو علم ہے قیامت کیا چیز ہے؟ صرف قیامت کی ہولناک حالت اور اہمیت بتانے کے لیے یہ تعبیر اختیار کی گئی ہے۔

وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ ایک ضرب المثل کی طرح ہے۔ کسی بھی ضرب المثل کی ترکیب میں تبدیلی نہیں لائی جاتی۔ یہ لفظ دَرَی سے ہے۔ باب افعال میں تین مفعولوں تک متعدی ہوتا ہے: ادرکنی زید الحاقۃ امراً عظیما۔ عام طور پر یہ ترکیب ’’آپ کیا جانے‘‘ کے معنوں میں بطور ضرب المثل استعمال ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں کاف کا خطاب کسی معین مخاطب کے لیے نہیں ہوتا۔ اسی لیے یہ کاف ہمیشہ مفرد استعمال ہوتا ہے، تثنیہ اور جمع نہیں ہوتا، نہ تانیث ہوتا ہے۔

مَاۤ استفہامیہ ہے جو اہمیت اور عظمت بتانے کے لیے مستعمل ہے جیسا کہ ایک عظیم شے کے بارے میں استفہام ہوا کرتا ہے۔

راغب نے المفردات میں لکھا ہے:

قرآن پاک میں جہاں کہیں وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ آیا ہے وہاں بعد میں اس کا بیان بھی لایا گیا ہے۔ جیسے فرمایا: وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا ہِیَہۡ نَارٌ حَامِیَۃٌ﴿۱۱﴾ (۱۰۱ قارعۃ: ۱۱۔ ۱۲) اور وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا لَیۡلَۃُ الۡقَدۡرِ لَیۡلَۃُ الۡقَدۡرِ ۬ۙ خَیۡرٌ مِّنۡ اَلۡفِ شَہۡرٍ ﴿۳﴾ (۹۷ قدر: ۲۔۳)


آیات 1 - 3