آیات 51 - 52
 

وَ اِنۡ یَّکَادُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَیُزۡلِقُوۡنَکَ بِاَبۡصَارِہِمۡ لَمَّا سَمِعُوا الذِّکۡرَ وَ یَقُوۡلُوۡنَ اِنَّہٗ لَمَجۡنُوۡنٌ ﴿ۘ۵۱﴾

۵۱۔ اور کفار جب اس ذکر (قرآن) کو سنتے ہیں تو قریب ہے کہ اپنی نظروں سے آپ کے قدم اکھاڑ دیں اور کہتے ہیں: یہ دیوانہ ضرور ہے۔

وَ مَا ہُوَ اِلَّا ذِکۡرٌ لِّلۡعٰلَمِیۡنَ﴿٪۵۲﴾

۵۲۔ اور حالانکہ یہ (قرآن) عالمین کے لیے فقط نصیحت ہے۔

تشریح کلمات

لَیُزۡلِقُوۡنَکَ:

( ز ل ق ) زلق پھسلنے کو کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

اگر اللہ کی حمایت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے شامل حال نہ ہوتی تو مشرکین اپنی نظر بد سے آپ کو گزند پہنچانے کی کوشش کرتے لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہوں گے۔

ایک رائے یہ ہے کہ نظر بد کسی چیز کو زیادہ پسندیدہ قرار دینے سے لگتی ہے مگر مشرکین حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مجنون کہتے تھے تو نظر بد کیسے لگتی۔ وَ یَقُوۡلُوۡنَ اِنَّہٗ لَمَجۡنُوۡنٌ کا یہ مطلب ہو سکتا ہے: حالانکہ وہ کہتے ہیں محمد مجنون ہیں تو چشم بد کیسی؟ مگر یہ کہا جائے کہ وہ کہتے تو تھے کہ مجنون ہیں مگر دل سے ان کے کمالات سے متاثر بھی تھے۔

دوسری تفسیر یہ کرتے ہیں: مشرکین آپ کو غیض و غضب کی نگاہ سے ایسے دیکھتے تھے کہ وہ دل سے چاہتے تھے آپ کے قدم اکھاڑ دیں۔

نظر بد کے مؤثر ہونے پر روایت اور درایت دونوں دلالت کرتی ہیں۔ چنانچہ مستدرک الوسائل ۱: ۴۲۱ اور صحیح بخاری باب الطب حدیث ۲۹۹ میں آیا ہے۔ الْعَیْنُ حَقّ یعنی چشم بد ایک حقیقت ہے۔


آیات 51 - 52