آیت 1
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ القمر

اس سورۃ المبارکہ کا نام شروع میں مذکور وَ انۡشَقَّ الۡقَمَرُ سے ماخوذ ہے۔ یہ سورۃ مکی ہے اور آیات کی تعداد ۵۵ ہے۔

مضامین سورۃ انذار و تنبیہ پر مشتمل ہے اور اس بات کو تاکید اور تکرار کے ساتھ کئی بار دہرایا کہ ’’ہم نے قرآن کو نصیحت کے لیے آسان بنا دیا ہے تو کیا کوئی نصیحت قبول کرنے والا ہے؟‘‘

اس سورۃ میں یہ پیشنگوئی بھی ہے کہ مشرکین فاتح جماعت نہیں ہیں بلکہ ’’یہ جماعت عنقریب شکست کھائے گی اور پیٹھ پھیر کر بھاگے گی۔‘‘ (آیت ۴۵)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِقۡتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَ انۡشَقَّ الۡقَمَرُ﴿۱﴾

۱۔ قیامت قریب آ گئی اور چاند شق ہو گیا۔

تفسیر آیات

شق قمر اور قیامت کے نزدیک ہونے میں کوئی ربط معلوم ہوتا ہے۔ وہ ربط یہ ہے کہ چاند کے ٹکڑے ہونے سے اس بات کا امکان سامنے آ گیا کہ موجودہ نظام درہم برہم ہو سکتا ہے اور قیامت موجودہ نظام کائنات کے درہم برہم ہونے سے عبارت ہے۔

شق القمر کا معجزہ ایک ممکن الوقوع معجزہ ہے۔ انبیاء علیہم السلام کے واقع شدہ معجزات میں سے ایک معزہ ہے آتش نمرود، عمر نوح، عصائے موسیٰ، ولادت عیسیٰ، مردوں کا زندہ کرنا، وغیرہ کی طرح۔ لہٰذا اس کے وقوع کو طبیعاتی قوانین کی دفعات میں تلاش نہیں کرنا چاہیے بلکہ انبیاء علیہم السلام کے معجزات میں تلاش کرنا چاہیے۔

ہم نے اس سے پہلے متعدد مقامات پر اس بات کی وضاحت کی ہے کہ: معجزات، طبیعیاتی قوانین کے دائرے میں نہیں ہوتے اور بلا علت بھی نہیں ہوتے۔ ہر حادثے کی طرح معجزات کے پیچھے علل و اسباب ہوتے ہیں۔ البتہ یہ علل و اسباب عام لوگوں کے لیے قابل تسخیر نہیں ہیں۔ اسی قابل تسخیر نہ ہونے کی وجہ سے معجزہ، معجزہ ہوتا ہے۔ لہٰذا معجزے کی طبیعیاتی توجیہ کرنا درست نہیں ہے جب کہ بعض مفسرین نے اس کی توجیہ کرنے کے لیے بہت زحمت و تکلف سے کام لیا ہے۔

شق القمر کا واقعہ ہجرت سے پانچ سال قبل کا ہے۔ مشرکین نے ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا: اگر آپ سچے ہیں توچاند کو دو ٹکڑے کر دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ان فعلت تومنون؟ اگر میں نے ایسا کر دیا تو کیا تم ایمان لاؤ گے؟ لوگوں نے کہا: ہاں۔ چنانچہ چودہویں کا چاند تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کی:

فانشق القمر فلقتین و رسول اللہ ص ینادی یا فلان یا فلان اشھدوا۔ (بحارالانوار ۱۷: ۳۶۷)

چنانچہ چاند دو ٹکڑے ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے فلاں اے فلاں گواہ رہنا۔

شق القمر کے واقع کے راویان حضرت علی، عبد اللٰہ بن مسعود، انس بن مالک، حذیفہ بن یمان، عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عباس اور جبیر بن مطعم ہیں۔ اگرچہ اس واقع کے عینی شاہد تو حضرت علی علیہ السلام ابن عابس اور ابن عمر ہو سکتے ہیں۔ باقی اصحاب ہجرت کے بعد داخل اسلام ہوئے ہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معاصر اور صحبت حاصل ہونے کی وجہ سے عین ممکن ہے کہ اس واقع کو ان اصحاب نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہی سنا ہو۔

اس معجزے پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں جن کا مختصر ذکر ضروری ہے:

پہلا سوال: معجزات کی دو قسمیں ہیں: ابتدائی معجزہ جو ہر رسول اپنی رسالت کے ثبوت کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اس قسم کے معجزات کے انکار پر فوری عذاب نہیں آتا۔ دوسرا معجزہ، تجویزی معجزہ ہے ہیں جو لوگوں کے مطالبے پر دکھایا جاتا ہے۔ اس قسم کے معجزات کے انکار پر فوری عذاب نازل ہو جاتا ہے۔

وَ لَوۡ اَنۡزَلۡنَا مَلَکًا لَّقُضِیَ الۡاَمۡرُ ثُمَّ لَا یُنۡظَرُوۡنَ (۶ انعام: ۸)

اور اگر ہم نے فرشتہ نازل کر دیا ہوتا تو (اب تک) فیصلہ بھی ہو چکا ہوتا پھر انہیں (ذرا) مہلت نہ دی جاتی۔

اگر شق القمر کا معجزہ لوگوں کے مطالبے پر دکھایا گیا ہے اور لوگوں نے اسے جادو کہ کر قبول نہیں کیا تو فوری عذاب آنا چاہیے تھا ،جو نہیں آیا؟

جواب یہ ہے کہ یہ اس امت مرحومہ کا خاصہ ہے کہ اسے فوری عذاب سے دو امان عنایت ہوئی ہیں: ایک رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود، دوسری استغفار۔ فرمایا:

وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمۡ وَ اَنۡتَ فِیۡہِمۡ ؕ وَ مَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَہُمۡ وَ ہُمۡ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ (۸ انفال: ۳۳)

اور اللہ ان پر عذاب نازل نہیں کرے گا جب تک آپ ان کے درمیان موجود ہیں اور نہ ہی اللہ انہیں عذاب دینے والا ہے جب وہ استغفار کر رہے ہوں۔

لہٰذا جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے درمیان موجود رہے ان پر عذاب نہیں آیا۔ البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مکہ سے خارج ہونے کے بعد ان پر بدر وغیرہ میں عذاب آنا شروع ہو گیا۔ اس جواب کو صاحب تفسیر المیزان نے اختیار کیا ہے۔

دوسرا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ یہ موقف اختیار کیا جائے کہ یہ معجزہ لوگوں کے مطالبے پر نہیں دکھایا گیا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم از خود دکھایا ہے۔

چنانچہ جو روایت حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے۔ اس میں لوگوں کے مطالبے کا ذکر نہیں ہے۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں:

انشق القمر بمکۃ فلقتین فقال رسول اللہؐ اشھدوا اشھدواً۔ ( الامالی للطوسی ۱: ۳۴۱)

مکہ میں چاند دو ٹکڑے ہو گیا تو رسول اللہؐ نے فرمایا: گواہ رہو گواہ رہو۔

دوسرا سوال یہ کیا جاتا ہے کہ: اگر شق القمر ہو گیا ہوتا تو اس وقت کی رصدگاہوں میں بہت سے لوگوں کو دکھائی دیتا۔

جواب یہ ہے کہ چاند دو ٹکڑے ہونے کے بعد مختصر وقفے کے بعد دوبارہ جڑ گیا۔ ایک مختصر وقفے میں دوسرے لوگ متوجہ نہیں ہوتے۔ دوسری بات یہ ہے روایت کے مطابق چودہویں کا چاند تھا جو شق ہو گیا۔ اس وقت دوسرے علاقوں میں دیکھا نہیں جاتا جیسا کہ چاند گرہن بعض علاقوں میں دیکھا جاتا ہے اور بعض علاقوں میں نہیں دیکھا جاتا۔

بعض یہ خیال کرتے ہیں: انۡشَقَّ الۡقَمَرُ سے مراد یہ ہے کہ ابتدائی تخلیق کائنات میں قمر، سورج سے منشق ہو گیا تھا۔ دوسرے بعض کہتے ہیں انۡشَق سے مراد یہ ہے کہ قیامت کے دن منشق ہو گا۔ ماضی کا صیغہ اس واقعہ کے یقینی ہونے کی وجہ سے استعمال ہوا ہے۔

یہ دونوں نظریے قابل توجہ نہیں ہیں۔ چونکہ اگلی آیت میں فرمایا ہے: یہ کافر لوگ جو بھی معجزہ دیکھ لیں منہ پھیر لیتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ شق القمر معجزہ تھا جو رونما ہوا۔ سورج سے الگ ہونا، اول تو ایک تھیوری سے زیادہ اس کی حقیقت نہیں ہے۔ ثانیاً یہ کوئی معجزہ نہیں، اسی طرح قیامت کے دن ہونے والے واقعات معجزہ نہیں ہیں۔

شاعر نے ایک اچھا تخیل پیش کیا ہے:

معجزہ شق القمر کا ہے مدینہ سے عیاں

مہ نے شق ہو کر لیا ہے دین کو آغوش میں


آیت 1