آیت 75
 

وَ تَرَی الۡمَلٰٓئِکَۃَ حَآفِّیۡنَ مِنۡ حَوۡلِ الۡعَرۡشِ یُسَبِّحُوۡنَ بِحَمۡدِ رَبِّہِمۡ ۚ وَ قُضِیَ بَیۡنَہُمۡ بِالۡحَقِّ وَ قِیۡلَ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿٪۷۵﴾

۷۵۔ اور آپ فرشتوں کو عرش کے گرد حلقہ باندھے ہوئے اپنے رب کی ثناء کے ساتھ تسبیح کرتے ہوئے دیکھیں گے اور لوگوں کے درمیان برحق فیصلہ ہو چکا ہو گا اور کہا جائے گا: ثنائے کامل اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ تَرَی الۡمَلٰٓئِکَۃَ: جب آسمانوں کو لپیٹ لیا جائے گا تو اس وقت عرش الٰہی اور اس کے گرد فرشتے موجود نظر آئیں گے۔

عرش اس مقام ربوبیت کو کہتے ہیں جہاں سے تدبیر کائنات سے متعلق اوامر صادر ہوتے ہیں اور عرش کے گرد موجود فرشتے ان اوامر کو نافذ کرتے ہیں۔ اس طرح آیت کا ظاہری مفہوم یہ بنتا ہے کہ جب آسمانوں کو لپیٹ لیا جائے گا تو اس وقت اوامر الٰہی اور اس کے نافذ کرنے والے ہی نظر آئیں گے۔ جو اللہ کی حمد کے ساتھ تسبیح میں مشغول ہیں۔

۲۔ وَ قُضِیَ بَیۡنَہُمۡ بِالۡحَقِّ: بَیۡنَہُمۡ کی ضمیر ملائکہ کی طرف نہیں جاتی چونکہ ملائکہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ فیصلے کی ضرورت پیش آئے۔ لہٰذا یہ فیصلہ لوگوں، جماعتوں اور امتوں کے درمیان ہو گا۔ جب کائنات لپیٹنے کے بعد عرش الٰہی اور فرشتے نظر آ رہے ہوں گے اس وقت جن کے درمیان فیصلہ ہونا تھا ہو چکا ہو گا لہٰذا قُضِيَ کو ماضی کے معنوں میں لینا مناسب ہو گا۔

۳۔ وَ قِیۡلَ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ: یہ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ کہنے والے کون لوگ ہوں گے، اس میں متعدد اقوال ہیں۔ بعض کے نزدیک یہ کہنے والے اہل تقویٰ ہوں گے۔ جیسے پہلے ذکر ہو گیا کہ اہل جنت کے آخری کلمات الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ہوں گے۔


آیت 75