آیت 73
 

وَ سِیۡقَ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا رَبَّہُمۡ اِلَی الۡجَنَّۃِ زُمَرًا ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَآءُوۡہَا وَ فُتِحَتۡ اَبۡوَابُہَا وَ قَالَ لَہُمۡ خَزَنَتُہَا سَلٰمٌ عَلَیۡکُمۡ طِبۡتُمۡ فَادۡخُلُوۡہَا خٰلِدِیۡنَ﴿۷۳﴾

۷۳۔اور جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے رہے ہیں انہیں گروہ در گروہ جنت کی طرف چلایا جائے گا یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس پہنچ جائیں گے اور اس کے دروازے کھول دیے جائیں گے اور جنت کے منتظمین ان سے کہیں گے: تم پر سلام ہو۔ تم بہت خوب رہے، اب ہمیشہ کے لیے اس میں داخل ہو جاؤ۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ سِیۡقَ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا: اہل تقویٰ کو جنت کی طرف گروہ در گروہ روانہ کیا جائے گا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوا کہ اہل جہنم اور اہل تقویٰ دونوں کے لیے ایک تعبیر سِيْقَ کیسے استعمال ہوئی جس کے لغوی معنی چلانے، ہانکنے کے ہیں؟

صاحب الکشاف نے جواب دیا ہے: خود اہل جہنم کو ہانک دیا جائے گا جب کہ اہل تقویٰ سوار ہوں گے۔ ان کی سواریوں کو ہانک دیا جائے گا۔ مجمع البیان نے جواب دیا ہے کہ مقابلتاً ایسا کہنا درست ہے جیسے اہل جہنم کے لیے فَبَشِّرۡہُمۡ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ ’’انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دیں‘‘ ہے۔

۲۔ حَتّٰۤی اِذَا جَآءُوۡہَا وَ فُتِحَتۡ اَبۡوَابُہَا: جنت کے کارندے یہاں تحیت و سلام پیش کر رہے ہیں۔ اہل جہنم کو کارندے طعنہ دے رہے ہیں اور یہاں فرشتے اہل جنت کو عزت و تکریم سے نواز رہے ہیں:

۳۔ طِبۡتُمۡ: تم خوب رہے۔ جنت میں داخل ہونے کی سعادت ملنے اور دنیا میں نیک اعمال بجا لانے پر یا معنی یہ ہو سکتا ہے: تم پاکیزہ رہے، گناہوں کی کثافت سے۔

۴۔ فَادۡخُلُوۡہَا خٰلِدِیۡنَ: یہ زندگی ختم ہونے کے لیے وجود میں نہیں آئی۔ یہ زندگی، خواہ جہنم میں جائے یا جنت میں، ابدی ہے۔

اہم نکات

۱۔ فرشتے جنت کے دروازے پر اہل جنت کا استقبال کریں گے۔


آیت 73