آیات 71 - 72
 

وَ سِیۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی جَہَنَّمَ زُمَرًا ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَآءُوۡہَا فُتِحَتۡ اَبۡوَابُہَا وَ قَالَ لَہُمۡ خَزَنَتُہَاۤ اَلَمۡ یَاۡتِکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ یَتۡلُوۡنَ عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِ رَبِّکُمۡ وَ یُنۡذِرُوۡنَکُمۡ لِقَآءَ یَوۡمِکُمۡ ہٰذَا ؕ قَالُوۡا بَلٰی وَ لٰکِنۡ حَقَّتۡ کَلِمَۃُ الۡعَذَابِ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۷۱﴾

۷۱۔ اور کفار گروہ در گروہ جہنم کی طرف ہانکے جائیں گے، یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس پہنچ جائیں گے تو اس کے دروازے کھول دیے جائیں گے اور جہنم کے کارندے ان سے کہیں گے: کیا تمہارے پاس تم میں سے پیغمبر نہیں آئے تھے، جو تمہارے رب کی آیات تمہیں سناتے اور اس دن کے پیش آنے کے بارے میں تمہیں متنبہ کرتے؟ وہ کہیں گے: ہاں (کیوں نہیں!) لیکن (اب) کفار کے حق میں عذاب کا فیصلہ حتمی ہو چکا ہے۔

قِیۡلَ ادۡخُلُوۡۤا اَبۡوَابَ جَہَنَّمَ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ۚ فَبِئۡسَ مَثۡوَی الۡمُتَکَبِّرِیۡنَ﴿۷۲﴾

۷۲۔ کہا جائے گا: جہنم کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ جس میں تمہیں ہمیشہ رہنا ہے، پس تکبر کرنے والوں کا کتنا برا ٹھکانا ہے۔

تشریح کلمات

زُمَرًا:

( ز م ر ) زمر کے معنی چھوٹی جماعت کے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ سِیۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی جَہَنَّمَ: اعمال پر شواہد کی روشنی میں فیصلہ کرنے کے بعد کافروں کو جہنم کی طرف ہانک دیاجائے گا۔ سوق، سیاقت، چلانے کو کہتے ہیں۔ یہ ہانکنے والے فرشتے ہوں گے جو اس کام پر مامور ہیں۔ جو چھوٹے چھوٹے گروہوں کی شکل میں لا کر انہیں جہنم کی طرف دھکیلتے ہوئے لے جائیں گے۔

۲۔ حَتّٰۤی اِذَا جَآءُوۡہَا: جب یہ کافر لوگ جہنم کے پاس پہنچ جائیں گے اور جہنم کے دروازے ان کے لیے کھول دے جائیں گے تو جہنم کے کارندے ان سے چند ایک سوالات طعنے کے طور پر کریں گے۔

الف: کیا اللہ کے رسولوں نے اللہ کی وحدانیت اور اس کی ربوبیت پر دعوت فکر پر مبنی آیات پڑھ کر تمہیں نہیں سنائی تھیں۔

ب: وَ یُنۡذِرُوۡنَکُمۡ: اور آج کے دن کے بارے میں تمہیں تنبیہ اور حجت پوری نہیں کی تھی کہ قیامت کا دن آنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح ہدایت کا سامان فراہم فرمایا ہے اس کے تحت تمہارے جہنم جانے کی نوبت نہیں آنی چاہیے تھی۔

۳۔ قَالُوۡا بَلٰی: ان طعنوں کے جواب میں کافر لوگ کہیں گے: رسولوں نے حجت پوری کرنے اور آج کے دن کے بارے میں تنبیہ کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔

۴۔ وَ لٰکِنۡ حَقَّتۡ کَلِمَۃُ الۡعَذَابِ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ: کافروں کو قیامت کے دن یہ بات سمجھ میں آ گئی کہ ہم اللہ تعالیٰ کے عادلانہ اٹل فیصلے کی زد میں آ گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ یہ تھا:

اَفَمَنۡ کَانَ مُؤۡمِنًا کَمَنۡ کَانَ فَاسِقًا ؕؔ لَا یَسۡتَوٗنَ﴿۱۸﴾ (۳۲ سجدہ: ۱۸)

بھلا جو مومن ہو وہ فاسق کی طرح ہو سکتا ہے؟ یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔

وَ تَمَّتۡ کَلِمَۃُ رَبِّکَ لَاَمۡلَـَٔنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الۡجِنَّۃِ وَ النَّاسِ اَجۡمَعِیۡنَ﴿۱۱۹﴾ (۱۱ ھود: ۱۱۹)

اور تیرے رب کا وہ فیصلہ پورا ہو گیا (جس میں فرمایا تھا) کہ میں جہنم کو ضرور بالضرور جنات اور انسانوں سب سے بھر دوں گا۔

۵۔ قِیۡلَ ادۡخُلُوۡۤا اَبۡوَابَ جَہَنَّمَ: چنانچہ اس گفتگو کے بعد ان کافروں کو آتش جہنم میں ہمیشہ کے لیے ڈال دیا جائے گا۔ جہنم جانے کے اسباب میں سے جس اہم ترین چیز کا ذکر ہے وہ تکبر ہے: فَبِئۡسَ مَثۡوَی الۡمُتَکَبِّرِیۡنَ۔

اہم نکات

۱۔ قیامت کے دن پیش کرنے کے لیے کافروں کے پاس کوئی عذر نہ ہو گا۔


آیات 71 - 72