آیات 69 - 70
 

وَ اَشۡرَقَتِ الۡاَرۡضُ بِنُوۡرِ رَبِّہَا وَ وُضِعَ الۡکِتٰبُ وَ جِایۡٓءَ بِالنَّبِیّٖنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ قُضِیَ بَیۡنَہُمۡ بِالۡحَقِّ وَ ہُمۡ لَا یُظۡلَمُوۡنَ﴿۶۹﴾

۶۹۔ اور زمین اپنے رب کے نور سے چمک جائے گی اور (اعمال کی) کتاب رکھ دی جائے گی اور پیغمبروں اور گواہوں کو حاضر کیا جائے گا اور ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

وَ وُفِّیَتۡ کُلُّ نَفۡسٍ مَّا عَمِلَتۡ وَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَا یَفۡعَلُوۡنَ﴿٪۷۰﴾

۷۰۔ اور ہر شخص نے جو عمل کیا ہے اسے اس کا پورا بدلہ دیا جائے گا اور اللہ ان کے اعمال سے خوب واقف ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اَشۡرَقَتِ الۡاَرۡضُ: ارض سے مراد صحرائے محشر یعنی ارض قیامت ہے۔ جیسے فرمایا:

یَوۡمَ تُبَدَّلُ الۡاَرۡضُ غَیۡرَ الۡاَرۡضِ وَ السَّمٰوٰتُ۔۔۔۔ (۱۴ ابراہیم: ۴۸)

یہ (انتقام) اس دن ہو گا جب یہ زمین کسی اور زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان بھی۔

اس بدلی ہوئی جدید کائنات کی سرزمین نور الٰہی سے منور ہو جائے گی۔

۲۔ بِنُوۡرِ رَبِّہَا: یہاں نور رب سے کیامراد ہے؟ متعدد اقوال ہیں۔ نور سے مراد عدل ہے۔ یہ شمس و قمر کے بغیر اللہ کا خلق کردہ نور ہو گا۔ اس نور سے مراد حقائق کا انکشاف ہے کہ قیامت کے دن تمام پردے ہٹ جائیں گے۔

بعض روایات میں اس آیت کی تطبیق ظہور حضرت امام مہدی علیہ السلام پرہوئی ہے کہ آپ ؑکے ظہور سے زمین عدل و انصاف کے نور سے روشن ہو جائے گی۔ یہ روایات تفسیری نہیں، تطبیقی ہیں۔

۳۔ وُضِعَ الۡکِتٰبُ: کتاب رکھ دی جائے گی۔ کتاب سے مراد صحیفۂ اعمال یا لوح محفوظ دو موقف ہیں۔ زیادہ قرین واقع یہ ہے کہ کتاب سے مراد صحیفۂ اعمال ہے۔ اسے قرآن متعدد آیات میں کتاب سے تعبیر فرماتا ہے۔ چنانچہ سورہ کہف میں صحیفۂ اعمال کے لیے عیناً یہی تعبیر موجود ہے:

وَ وُضِعَ الۡکِتٰبُ فَتَرَی الۡمُجۡرِمِیۡنَ مُشۡفِقِیۡنَ مِمَّا فِیۡہِ وَ یَقُوۡلُوۡنَ یٰوَیۡلَتَنَا مَالِ ہٰذَا الۡکِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیۡرَۃً وَّ لَا کَبِیۡرَۃً اِلَّاۤ اَحۡصٰہَا۔۔۔۔ ( ۱۸ کہف: ۴۹)

اور نامۂ اعمال (سامنے) رکھ دیاجائے گا، اس وقت آپ دیکھیں گے کہ مجرمین اس کے مندرجات کو دیکھ کر ڈر رہے ہیں اور یہ کہ رہے ہیں: ہائے ہماری رسوائی! یہ کیسا نامۂ اعمال ہے؟ اس نے کسی چھوٹی اور بڑی بات کو نہیں چھوڑا (بلکہ) سب کو درج کر لیا ہے۔

۴۔ وَ جِایۡٓءَ بِالنَّبِیّٖنَ: انبیاء علیہم السلام کو حاضر کیا جائے گا کہ خود ان سے سوال ہو گا کہ ان سے تبلیغ رسالت کا حق ادا ہو گیا تھا؟ اور امت کو بھی اپنے نبی کے سامنے حاضر کیا جائے گا اور امت سے بھی سوال ہو گا کہ تم نے انبیاء کی دعوت کا کیا جواب دیا تھا؟

فَلَنَسۡـَٔلَنَّ الَّذِیۡنَ اُرۡسِلَ اِلَیۡہِمۡ وَ لَنَسۡـَٔلَنَّ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ۙ﴿۶﴾ (۷ اعراف: ۶)

پس جن کی طرف پیغمبر بھیجے گئے ہم ہر صورت میں ان سے سوال کریں گے اور خود پیغمبروں سے بھی ہم ضرور پوچھیں گے۔

۵۔ وَ الشُّہَدَآءِ: گواہوں کو حاضر کیا جائے گا۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ تمام رازوں کا جاننے والا ہے تاہم اعمال عباد کے بارے میں گواہان سے گواہی لی جائے گی۔ قیامت کے دن گواہی دینے والے فرشتے ہوں گے۔

وَ جَآءَتۡ کُلُّ نَفۡسٍ مَّعَہَا سَآئِقٌ وَّ شَہِیۡدٌ﴿۲۱﴾ (۵۰ ق: ۲۱)

اور ہر شخص ایک ہانکنے والے (فرشتے) اور ایک گواہی دینے والے (فرشتے) کے ساتھ آئے گا۔

وقت کا نبی، وقت کی حجت، اپنے اعضاء، زمین و زمان سب گواہی دیں گے۔

۶۔ وَ قُضِیَ بَیۡنَہُمۡ بِالۡحَقِّ: نامہ ہائے اعمال اور گواہوں کے بعد حق کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا۔ اگرچہ نامۂ اعمال اور گواہ نہ بھی ہوں، خود اللہ کی گواہی کافی تھا۔

۷۔ وَ ہُمۡ لَا یُظۡلَمُوۡنَ: ان پر ظلم کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے چونکہ ظلم کرنے کی اللہ کو ضرورت بھی نہیں ہے اور ظلم ایک قبیح عمل ہے جس سے اللہ کی ذات بری ہے۔

۸۔ وَ وُفِّیَتۡ کُلُّ نَفۡسٍ مَّا عَمِلَتۡ: ہر شخص کو اس کے عمل کا بدلہ پورا پورا دیا جائے گا۔ یہ ممکن نہیں کہ کسی نیک عمل کی جزا رہ جائے اور اس کے عمل کے مطابق نہ ملے بلکہ وہ تو ایک نیکی کا ثواب عام طور پر دس گنا اور بعض حالات میں سات سو گنا دیتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ انسان کی ہر جنبش، نامہ عمل میں درج ہونے کے ساتھ متعدد گواہوں کی نگرانی میں ہے۔

۲۔ اللہ تعالیٰ کا ہر فیصلہ اپنے علم کے علاوہ شواہد کی بنیاد پر ہو گا۔


آیات 69 - 70