آیت 2
 

اَلزَّانِیَۃُ وَ الزَّانِیۡ فَاجۡلِدُوۡا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنۡہُمَا مِائَۃَ جَلۡدَۃٍ ۪ وَّ لَا تَاۡخُذۡکُمۡ بِہِمَا رَاۡفَۃٌ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ۚ وَ لۡیَشۡہَدۡ عَذَابَہُمَا طَآئِفَۃٌ مِّنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۲﴾

۲۔ زناکار عورت اور زناکار مرد میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور دین خدا کے معاملے میں تمہیں ان پر ترس نہیں آنا چاہیے اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو اور ان کی سزا کے وقت مومنین کی ایک جماعت موجود رہے۔

تشریح کلمات

جَلۡدَۃٍ:

( ج ل د ) کوڑے مارنا۔

تفسیر آیات

۱۔ اَلزَّانِیَۃُ وَ الزَّانِیۡ فَاجۡلِدُوۡا: زنا کی یہ تعریف کی گئی ہے: انسان کسی ایسی عورت کے ساتھ ہمبستری کرے جو اس پر حرام ہو۔ نہ اس کے ساتھ عقد کیا ہو، نہ اس کی مملوکہ ہو اور نہ از روئے شبہ ہو۔ (شہید ثانی المسالک۔ ۱۴: ۳۲۸) اس میں قبل اور دبر میں فرق نہیں۔(الخوئی مبانی ۱:۱۶۷) مبانی میں محرمۃ کے بعد بالاصالۃ کی قید کا اضافہ کیا ہے کہ اصالۃً حرام ہو۔ عارضی طور پر حرام نہ ہو۔ جیسے حیض، روزہ اور احرام کی حالت میں اگر ہم بستری کرے تو حرام ہے، زنا نہیں ہے۔

فقہ حنفیہ زنا کی تعریف میں وطی فی الدبر (عمل قوم لوط) کو زنا میں شامل نہیں کرتے جب کہ مالکی، شافعی شامل کرتے ہیں۔ از روئے شبہ سے معلوم ہوا کہ اگر کسی عورت کے ساتھ اس گمان میں مباشرت کرے کہ وہ اس کی زوجہ ہے تو یہ زنا نہیں ہے۔ اسی طرح اس شبہ میں مباشرت کی کہ یہ عورت حلال ہے، بعد میں پتہ چلے حرام تھی، زنا نہیں ہے۔

عقد کی قید سے ظاہر ہے اس عورت کے ساتھ ہم بستری زنا نہیں ہے جس کے ساتھ عقد کیا ہو۔ اگر ایسی عورت کے ساتھ عقد کیا جائے جو اس پر عقد سے حلال نہیں ہوتی جیسے ماں، بہن، بیٹی وغیرہ تو اس عقد کا کوئی اثر نہیں۔ ایسے عقد سے ہمبستری کی جائے تو وہ زنا ہے۔ یعنی زنا بامحرم ہے۔ اسی طرح اگر کسی عورت کو ہمبستری کے لیے کرایہ پر لیا جائے تو بھی زنا ہے۔ امام ابوحنیفہ ان دونوں جگہوں پر زنا نہیں سمجھتے۔ وہ کہتے ہیں عقد کی وجہ سے زنا نہیں ہے۔ یعنی اگر کسی نے اپنی ماں، بیٹی کے ساتھ عقد کر کے ہمبستری کی تو یہ زنا نہیں ہے، عقد کی وجہ سے اور کرایہ پر لینے کی وجہ سے بھی زنا نہیں ہے۔ ( ۱لرخسی: المبسوط۔ ۹:۵۸۔۸۵) یعنی حد جاری نہ ہو گی۔

زنا پر اگر مجبور کیا گیا ہو تو حد نہیں ہے۔ جبر عورت پر تو ہو سکتا ہے لیکن کیا مرد پر بھی جبر ہو سکتا ہے؟ کہتے ہیں ایک امر کے شرعاً ممنوع ہونے کے باوجود فطرۃً خواہشات پیدا ہو سکتی ہیں لہٰذا مرد کو بھی مجبور کیا جا سکتا ہے۔

غیر اسلامی قوانین میں زنا کی تعریف میں ’’زن غیر‘‘ کی قید لگائی جاتی ہے۔ کسی کی زوجہ سے مباشرت کرے تو زنا ہے۔ اگر وہ کسی کی زوجیت میں نہیں ہے مثلاً کنواری ہے تو یہ زنا نہیں خواہ مرد شادی شدہ ہو یا نہ ہو۔ البتہ یہ ایک جرم ہے لیکن اس کی سزا نہیں ہے۔

مغربی دنیا میں زنا کا تصور صرف اور صرف جبر پر مبنی ہے۔ اگر طرفین مرضی سے مباشرت کریں تو یہ زنا اور جرم نہیں ہے۔

غیر کی عورت سے زنا کی سزا ہندوں میں یہ ہے کہ عورت کو کتوں کے سامنے ڈال دیا جائے تاکہ اسے چیر پھاڑ دیں۔ مرد کو لوہے پر لٹا کر آگ لگا دی جائے۔

یہودی قانون میں ہے:

جو شخص دوسرے کی بیوی یعنی ہمسایہ کی بیوی سے زنا کرے، زانی اور زانیہ دونوں ضرور جان سے مار دیے جائیں۔ ( احبار ۔ ۲۰۔۱۰)

اگر کوئی کنواری لڑکی کسی شخص سے منسوب ہو گئی ہو، دوسرا آدمی اسے شہر میں پا کر اس سے صحبت کرے تو تم ان دونوں کو اس شہر کے پھاٹک پر نکال کر لانا اور ان کو تم سنگسار کر دینا۔ ( استثناء ۲۲۔۲۳۔ ۲۶)

اسلامی تعلیمات اس جرم پر سزا دینے پر انحصار نہیں کرتیں۔ سزا تو جرم سرزد ہونے کے بعد آخری حل ہے بلکہ اسلام اس جرم کا اپنی انسان ساز تعلیمات کے ذریعہ سدباب کرتا ہے۔

۱۔ اسلام، مسیحیوں کے برخلاف شادی کو ایک مقدس فریضہ سمجھتا ہے اور اس کی تشویق فرماتا ہے۔ سورہ نور میں فرمایا:

وَ اَنۡکِحُوا الۡاَیَامٰی مِنۡکُمۡ وَ الصّٰلِحِیۡنَ مِنۡ عِبَادِکُمۡ وَ اِمَآئِکُمۡ ؕ اِنۡ یَّکُوۡنُوۡا فُقَرَآءَ یُغۡنِہِمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ (۲۴ نور: ۳۲)

اور تمہارے غلاموں اور کنیزوں میں سے جو صالح ہوں ان کا نکاح کر دو، اگر وہ نادار ہوں تو اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کر دے گا اور اللہ بڑی وسعت والا، علم والا ہے۔

وَ مَنۡ لَّمۡ یَسۡتَطِعۡ مِنۡکُمۡ طَوۡلًا اَنۡ یَّنۡکِحَ الۡمُحۡصَنٰتِ الۡمُؤۡمِنٰتِ ۔۔۔ (۴ نساء: ۲۵)

اور اگر تم میں سے کوئی مالی رکاوٹ کی وجہ سے آزاد مسلم عورتوں سے نکاح کرنے کی قدرت نہ رکھتا ہو تو (اسے چاہیے کہ) وہ تمہاری مملوکہ مسلمان لونڈی سے نکاح کرے۔

۲۔ احادیث میں شادی کی اہمیت:

النِّکَاحُ مِنْ سُنَّتِی فَمَنْ رَغِبَ عَنْہُ فَقَدْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِی ۔ (مستدرک ۱۴: ۱۵۲)

نکاح میری سنت ہے۔ جواس سے منہ موڑتا ہے وہ میری سنت سے منہ موڑتا ہے۔

رَکْعَتَانِ یُصَلِّیھِمَا الْمُتَزَوَّجُ اَفْضَلُ مِنْ سَبْعِینَ رَکْعَۃً یُصَلِّیھَا اَعْزَبُ ۔ (الکافی ۵: ۳۲۸)

شادی شدہ کی دو رکعت کنوارے (جس کی بیوی نہ ہو) کی ستر رکعتوں سے افضل ہے۔

مَا بُنِیَ فِی الْاِسْلَامِ بِنَائٌ اَحَبُّ اِلَی اللہِ عَزَّوَجَلَّ وَ اَعَزُّ مِنَ التَّزْوِیجِ ۔ (مستدرک ۱۴:۱۵۲)

اسلام میں کوئی بنیاد ایسی نہیں ڈالی گئی جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک شادی سے زیادہ پسندیدہ اور محترم ہو۔

مَنْ تَزَوَّجَ اَحْرَزَ نِصْفَ دِیْنِہِ ۔ (الکافی ۵: ۳۲۸)

جو شادی کرتا ہے اس نے اپنا نصف دین بچا لیا۔

شادی نہ کرنے کی مذمت:

اِنَّ اَرَاذِلَ مَوْتَاکُمُ الْعُزَّابُ ۔ (الفقیہ ۳: ۳۸۴)

تمہارے مُردوں میں سب سے کم درجہ کنوارے مُردوں کا ہے۔

خِیَارُ اُمَّتِی الْمُتَأَھِّلُونَ وَ شِرَارُ اُمَّتِی الْعُزَّابُ ۔ (مستدرک ۱۴: ۱۵۶)

میری امت کے نیک لوگ وہ ہیں جو شادی شدہ ہیں اور میری امت کے بدترین لوگ کنوارے لوگ ہیں۔

الْمُتَزَوِّجُ النَّائِمْ اَفْضَلُ عِنْدَ اللہِ مِنَ الصِّائِمِ الْقَائِمِ الْعَزَبِ ۔ (مستدرک ۱۴: ۱۵۵)

شادی شدہ کا نیند میں رہنا افضل ہے مجرد کے روزہ اور قیام (در عبادت) سے۔

۴۔ محرم نا محرم کی تمیز: اسلامی تعلیمات کا ایک اہم پہلو محرم، نا محرم کا تصور ہے۔ نامحرم کا مطلب یہ ہے کہ جس کے ساتھ شادی ہو سکتی ہے وہ مرد یا عورت نامحرم ہے۔ خواہ وہ سالی، سالہ یا شوہر کے بھائی یا بھائی کی زوجہ ہی کیوں نہ ہو۔

انسان پر واجب ہے کہ وہ نامحرم عورت کی طرف بقصد تلذذ نہ دیکھے:

قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ ۔۔۔ (۲۴ نور: ۳۰)

آپ مومن مردوں سے کہدیجیے: وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں۔۔۔۔

وَ قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنٰتِ یَغۡضُضۡنَ مِنۡ اَبۡصَارِہِنَّ ۔۔۔ (۲۴ نور:۳۱)

اور مومنہ عورتوں سے بھی کہدیجیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔

حدیث میں آیا ہے:

لَکَ اَوَّلُ نَظْرَۃِ وِ الثَانِیَّۃُ عَلَیْکَ وَلاَ لَکَ ۔ (الفقیۃ ۴:۱۹)

پہلی نگاہ تیرے حق میں ہے دوسری نگاہ تیرے حق میں نہیں ہے۔

یعنی پہلی نگاہ جائز ہے۔ دوسری نگاہ جائز نہیں ہے۔

ایک مصری شاعر نے خوب کہا ہے۔

نظرۃ فابتسامۃ فسلام

فکلام فموعد فلقاء

ایک نگاہ پھر ایک تبسم پھر سلام

پھر گفتگو، پھر طے، پھر ملاقات

۵۔ عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر جائے۔

۶۔ زنا کو اسلام نے بدترین گناہ قرار دیا ہے۔ یہاں تک کہ بعض روایات میں آیا ہے کہ یہ سبع موبقات (سات ایسے گناہ جن کے ارتکاب پر جہنم ہے) میں شامل ہے۔

وَ لَا تَقۡرَبُوا الزِّنٰۤی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً ؕ وَ سَآءَ سَبِیۡلًا (۱۷ بنی اسرائیل:۳۲)

اور زنا کے قریب بھی نہ جاؤ، یقینا یہ بڑی بے حیائی ہے اور بہت برا راستہ ہے۔

فِی الزَّنَا خَمْسُ خِصَالٍ یَذْہَبُ بِمَائِ الْوَجْہَ وَ یُورِثُ الْفَقْرِ وَ یَنْقُصُ الْعُمُرَ وَ یُسْخِطُ الرَّحْمَنَ وَ یُخَلِّدُ فِی النَّارِ، نَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ النَّارِ ۔ (الکافی ۵:۵۴۲)

زنا میں پانچ خصلتیں ہیں: بے آبرو ہوتا ہے۔ فقر کا باعث ہوتاہے۔ عمر کوتاہ ہو جاتی ہے، خدائے رحمن ناخوش ہوتا ہے۔ جہنم میں ہمیشہ رہنا پڑتا ہے۔ ہم پناہ مانگتے ہیں اللہ کی جہنم کی آگ سے۔

اِذَا ظَہَرَ الزِّنَا مِنْ بَعْدِی کَثُرَ مَوْتُ الْفَجَأۃِ ۔ (الکافی۲: ۳۷۴)

میرے بعد جب زنا عام ہو جائے تو مرگ مفاجات زیادہ ہو گی۔

اِذَا فَشَا الزِّنَا ظَہَرَتِ الزَّلْزِلَۃُ ۔ (الخصال ۱:۲۸۷)

جب زنا عام ہو جائے تو زلزلہ زیادہ آئے گا۔

۷۔ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے یہ فطری خواہش پوری کرنے کے لیے اسلامی قوانین نے اس مسئلے میں انسانی کمزوری کو سامنے رکھا ہے:

الف: چار شادیوں تک اجازت دی گئی تاکہ مرد ہر وقت اپنی خواہشات پوری کر سکے اور معاشرے میں کوئی عورت بے شوہر نہ رہے۔

ب: اگر سفر و دیگر حالات میں اس سے بھی مسئلہ حل نہیں ہوتا تو موقت نکاح (متعہ) ایک بہترین حل ہے۔

ایک شخص ایک سے زیادہ شادی کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا اور کبھی ایک شادی کرنے کی حیثیت بھی نہیں رکھتا۔ دوسری طرف حوادث اور جنگوں میں لوگ مارے جاتے ہیں۔ بہت سی جوان عورتیں بیوہ ہو جاتی ہیں۔ بچے ساتھ ہونے کی وجہ سے ان سے کوئی شادی نہیں کرتا۔ اس صورت میں متعہ بہترین حل ہے۔ متعہ کے ہوتے ہوئے مسلمان زنا کا مرتکب نہیں ہو سکتا۔

اسی لیے عبد اللہ بن عباس کہا کرتے تھے:

متعہ اس امت کے لیے ایک رحمت تھا۔ اگر اس سے روکا نہ گیا ہوتا تو سوائے شقی کے کوئی زنا کا مرتکب نہ ہوتا۔

زنا ان تمام قدروں کو پامال کرتا ہے جن پر خاندان کی تشکیل کا دار و مدار ہے اور نسلوں میں جرائم کے جرثومے خلط ملط ہو جاتے ہیں جن کی وجہ سے ایک بدخصلت معاشرہ وجود میں آتا ہے۔

زنا اخلاقی قیود و حدود سے آزاد ہو کر ہوس رانی کی ایک درندگی ہے۔

زنا ناموس کی ہتک حرمت کے ساتھ ہوس پرستی کا غیر انسانی عمل ہے۔

احادیث کے مطابق زنا کے اثرات خود اس کا ارتکاب کرنے والے کی ناموس پر مترتب ہوتے ہیں۔

حدیث میں زنا کے مسئلے میں آیا ہے:

لاَ تَزْنُوا فَتَزْنِیَ نِسَاؤُکُمْ ۔۔۔ کَمَا تَدِینُ تُدَانُ ۔ (الکافی ۵: ۵۵۴)

لوگو! زنا نہ کرو ورنہ تمہاری عورتوں سے زنا ہو گا۔ جیسے تو کرے گا تیرے ساتھ وہی کچھ ہو گا ۔

زنا کا ثبوت: ۱۔ اقرار: اقرار کے مؤثر ہونے کی چند شرائط ہیں:

i۔ بالغ ii۔ عاقل iii۔ اپنے اختیار سے ہو iv۔ غلام نہ ہو۔ v۔ اقرار کو چار مرتبہ دہرائے۔

حنفی اور حنبلی کا بھی یہی موقف ہے۔ ( سرخسی۔ المبسوط ۹: ۹۱) مالکی اور شافعی کے نزدیک صرف ایک اقرار کافی ہے۔ ( بدایۃ المجتھد ۔ ۲:۴۳۸)

واضح رہے اسلامی تعلیمات اقرار بزنا کی تشویق نہیں کرتیں بلکہ اس بات کو ترجیح دی جاتی ہے کہ وہ اقرار نہ کرے۔ اپنے آپ کو معاشرے میں رسوا نہ کرے بلکہ اس عمل بد پر توبہ کرے۔ چنانچہ حضرت امیر المومنین - کی خدمت میں ایک شخص نے زنا کا چار مرتبہ اقرار کیا۔ آپؑ ہر مرتبہ اسے ترغیب دیتے تھے کہ اقرار کو آگے مت بڑھائے۔ جب اس نے چار مرتبہ اقرار کیا تو فرمایا:

فَوَ اللہِ لِتَوْبَتُہُ فِیمَا بَیْنَہُ وَ بَیْنَ اللہِ اَفْضَلُ مِنْ اِقَامَتِی عَلَیْہِ الْحَدَّ ۔۔۔ (الکافی ۷:۱۸۸)

قسم بخدا اس کا اپنے اور اللہ کے درمیان توبہ کرنا اس پر میری طرف سے حد جاری کرنے سے بہتر تھا۔

اگر کوئی زنا کا اقرار کرنے کے بعد انکار کرے تو سنگساری کی حد ساقط ہو گی۔ کوڑوں کی حد ساقط نہیں ہو گی۔ اگر بغیر شوہر کے حمل ٹھہر جائے، حد جاری نہ ہو گی کیونکہ ممکن ہے از روئے شبہ یا از روئے جبر یا از روئے مساحقہ ہو۔

۲۔ گواہ: گواہ سے زنا ثابت ہونے کے لیے درج ذیل شرائط ہیں:

i۔ چار عادل مرد گواہی دیں یا تین مرد، دو عورتیں۔ اگر گواہی دینے والے دو عادل مرد اور چار عورتیں ہوں تو اس سے حد ثابت ہوتی ہے، رجم نہیں۔

ii۔ گواہی مشاہدے کی دیں۔ اگر مشاہدہ کی گواہی نہ دیں تو گواہوں پر قذف کی حد جاری ہو گی۔

iii۔ گواہی ایک زمان اور ایک مکان کی ہو۔ اگر زمان و مکان میں اختلاف آ جائے تو زنا نہیں ہے۔ گواہوں پر قذف کی حد جاری ہو گی۔

iv۔ اگر چار مرد گواہوں نے ایک کنواری لڑکی کے قبل میں زنا کی گواہی دے دی مگر چار عورتوں نے گواہی دی کہ اس لڑکی کی بکارت باقی ہے تو اس لڑکی پر حد جاری نہ ہو گی۔

یہاں ایک مسئلہ پیش آتا ہے کہ ہمارے زمانے میں جو فیزیکل شواہد ہیں، مثلاً D.N.A کے ذریعہ زنا ثابت ہو گا یا نہ؟ ایک نظریہ یہ ہے کہ فیزیکل شواہد کی موجودگی میں گواہ کی نوبت نہیں آتی۔ فیزیکل شواہد اور گواہ میں اگر ٹکراؤ ہو جائے تو فیزیکل شواہد مقدم ہیں۔ جیسا کہ بکارت کے مسئلے میں گواہ پر فیزیکل شاہد مقدم ہے۔

دوسرا نظریہ یہ ہے کہ حد ثابت ہونے کے دو طریقے ہیں: اقرار اور گواہ۔ کسی تیسرے طریقے سے حد ثابت نہ ہو گی۔

v۔ اگر گواہ چار سے کم ہوں تو گواہوں پر قذف کی حد جاری ہو گی۔ زنا کی حد جاری نہ ہو گی۔

vi۔ اگر گواہی پوری ہونے سے پہلے توبہ کر لے تو حد ساقط ہو گی۔

vii۔ ہر اس مقام پر جہاں شبہ لاحق ہو جائے، حد جاری نہ ہو گی۔ مثلاً اس نے اس عورت کے ساتھ اپنی زوجہ سمجھ کر یا حلال سمجھ کر یا حرام ہونے کا علم نہ ہونے کی وجہ سے مباشرت کی ہو تو حد جاری نہ ہو گی۔ اس کے لیے یہ حدیث بنیاد ہے:

ادْرَئُ وا الْحُدُودَ بِالشُّبْہَاتِ ۔۔۔۔ (الفقیہ ۴: ۷۴)

شبہ لاحق ہونے کی صورت میں حد جاری نہ کرو۔

viii۔ اگر محارم عورتوں ماں، بیٹی، بہن کے ساتھ عقد کر کے (معاذ اللہ) ہمبستری کرے تو زنا بامحرم کی حد ہوگی۔ عقد کی وجہ سے حد ساقط نہ ہوگی۔ فقہ حنفی میں عقد کی وجہ سے یہ زنا نہیں ہے حد جاری نہ ہوگی۔ خواہ حرمت کا علم ہو تو بھی۔ ( المبسوط سرخسی ۹: ۵۸، ۸۵)

ix۔ جبر کی صورت میں حد جاری نہ ہوگی۔ عورت پر جبر تو ہو سکتا ہے لیکن مرد پر جبر کی کیا صورت ہو سکتی ہے۔ بعض کہتے ہیں جبر کی صورت میں خواہش کیسے بیدار ہوگی؟ لیکن اکثر کا یہ نظریہ ہے کہ شرعاً حرام ہونے اور فطرۃً خواہش بیدار ہونے میں منافات نہیں ہے۔ لہٰذا مرد پر بھی جبر چل سکتا ہے۔

حدود و تعزیرات

۱۔ قتل:

الف: اپنی محرم عورتوں سے زنا کرنے کی سزا قتل ہے۔

ب: کافر ذمی، مسلم عورت سے زنا کرے۔

ج: کسی عورت پر جبر کر کے زنا کرے تو ان سب میں سزا قتل ہے۔

۲۔ رجم (سنگسار): اگر شادی شدہ شخص جس کی عورت اس کی دست رسی میں ہو اور اس سے مباشرت کرنے میں کوئی رکاوٹ بھی نہ ہو، زنا کرے تو اس کی سزا سنگسارکرنا ہے۔

سنگسار کیے جانے کی سزا کے لیے درج ذیل شرائط موجود ہونی چاہئیں:

الف۔ بالغ و عاقل ہو۔ نابالغ او رمجنون ہو تو رجم نہیں ہے۔

ب۔ غلام نہ ہو۔ اگر غلام ہو تو رجم نہیں ہے۔

ج۔ حلال عورت اس کی دست رسی میں ہو۔ جب چاہے اس کے ساتھ مباشرت کر سکتا ہو۔ اگر اس سے دور ہونے کی وجہ سے اس کی دست رسی میں نہ ہو تو یہ سزا نہ ہو گی۔ اسے فقہی اصطلاح میں زناء المحصن ، احصان یعنی حفاظتی حصار میں ہونے والے کا زنا کہتے ہیں۔ احصان حفاظتی قلعہ میں آنے کو کہتے ہیں۔ یعنی شادی کرنے کے بعد جنسی خواہشات کی طغیانی سے بچانے والے حصار میں آنے کے بعد بھی زنا کرتا ہے تو اس کی سزا رجم، سنگسار کرنا ہے۔

مندرجہ بالا شرائط کے ساتھ اگر عمر رسیدہ بھی ہو تو پہلے کوڑے مارے جائیں گے بعد میں سنگسار ہو گا اور اگر جوان ہو تو بعض کے نزدیک صرف رجم ہے اور بعض کے نزدیک اس کے لیے بھی تازیانہ اور رجم دونوں دونوں سزائیں ہیں۔ حنبلی کا بھی یہی نظریہ ہے۔

۳۔ تازیانہ: یہ ایسے لوگوں کی سزا ہے جو رجم کی سزا کی شرائط نہیں رکھتے۔ ساتھ یہ بھی ہے کہ مرد ہو۔ ایسے لوگوں کی سزا ایک سو تازیانے، ایک سال علاقہ بدری اور سر منڈوانا ہے۔ عورت ہو تو صرف تازیانے ہے۔ اس میں اصل وہ حدیث ہے جو رسول کریم ؐسے روایت ہے:

البکر بالبکر جلد مأۃ وتغریب عام والثیب بالثیب جلد مأۃ و رجم (سنن دارمی ۲: ۱۸۱۔ صحیح مسلم ۳:۳۱۶)

غیر شادی شدہ مرد کا غیر شادی شدہ عورت کے ساتھ ہو تو ایک سو کوڑے ایک سال علاقہ بدری، شادی شدہ کے ساتھ ہو تو سو کوڑے اور سنگساری ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی روایت میں آیا ہے:

الشَّیْخُ وَالشَّیْخَۃُ جُلِدَ مِائَۃُ وَالرَّجْمَ وَ الْبِکْرُ وَالْبِکْرَۃُ جُلِدَ مِائَۃُ وَ نَفْیَ سَنَۃٍ ۔۔۔۔ (الفقیہ: ۲۶)

عمر رسیدہ مرد اور عمر رسیدہ عورت اگر زنا کریں سو کوڑے اور سنگسار ہے اور کنوارا اور کنواری اگر زنا کریں تو سو کوڑے اور سال کے لیے علاقہ بدری ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی روایت کردہ حدیث سے صحیح مسلم کی روایت کردہ حدیث کی تشریح ہوتی ہے چونکہ غیر شادی شدہ خواہ شادی شدہ عورت سے زنا کرے یا غیر شادی شدہ عورت سے، سزا ایک ہے۔ یہی صورت عورت کی بھی ہے کہ اس سے زنا کرنے والا خود شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ اس کی ایک ہی سزا ہے۔

امام صادق علیہ السلام کی روایت میں یہ بات واضح ہے کہ عمر رسیدہ مرد اگر زنا کرے دوسری طرف جو بھی ہو، اسی طرح عمر رسیدہ عورت زنا کرے دوسری طرف جو بھی ہو تو اس کی سزا سو تازیانہ اور رجم ہے۔

اسی طرح اگر غیر شادی شدہ مرد زنا کرے دوسری طرف جو بھی ہو اور شادی شدہ عورت زنا کرے دوسری طرف جو بھی ہو، اس کی سزا سو کوڑے اور جلا وطنی ہے۔ اگر عورت ہو تو علاقہ بدری نہ ہو گی۔ مالکی کا بھی یہی موقف ہے۔

سخت سردی اور گرمی میں حد جاری نہ ہو گی۔ سردیوں میں دن کے وسط میں اور گرمیوں میں دن کی ابتدا یا آخر میں جاری کی جائے گی۔ مریض پر صحت یاب ہونے تک حد جاری نہ ہو گی۔ اگر حد جاری کرنا ضروری ہو تو ایک سوتیلیوں پر مشتمل ایک گچھہ ایک بار مارنا چاہیے۔

واضح رہے کہ حقوق اللہ میں حد جاری کرنا شرعی حاکم کی ذمے داری ہے۔ دوسرے لوگ کوئی سزا جاری نہیں کر سکتے۔ اگر حقوق العبادمیں سے ہو، جیسے قذف تو متاثرہ شخص کے مطالبے پر حد جاری کی جائے گی۔

تازیانہ اور رجم کے بھی احکام و آداب ہیں جو ایک مہذب اور دستوری نظام کے آئینہ دار ہیں۔ ان کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں درج ہے۔

۲۔ وَّ لَا تَاۡخُذۡکُمۡ بِہِمَا رَاۡفَۃٌ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ: اسلامی سزاؤں کے اجراء کے سلسلے میں جذبات و احساسات کا غالب آنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کے ذہن پر اللہ تعالیٰ کی حکمت و حاکمیت حاکم نہیں ہے۔

۳۔ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ: اللہ اور آخرت پر ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ دین خدا کے سلسلے میں جذبات غالب نہ آئیں۔

اس سلسلے میں ایک حدیث قابل ذکر ہے۔ رسول اللہ سے روایت ہے:

یُوْتَی بِوَالٍ نَقَصَ مِنَ الْحَدِّ سَوْطاً فَیَقُولْ رَبِّ رَحْمَۃً لِعِبَادِکَ فَیُقَالُ لَہُ اَنْتَ اَرْحَمُ بِہِمْ مِنِّی فَیُوْمَرُ بِہِ اِلَی النَّارِ وَ یُوْتَی بِمَنْ زَادَ سَوْطاً فَیَقُولُ لِیَنْتَھُوا عَنْ مَعَاصِیکَ فَیُوْمَرُ بِہِ اِلَی النَّارِ ۔ (مستدرک الوسائل ۱۸: ۳۷)

قیامت کے دن ایک حاکم کو لایا جائے گا جس نے ایک تازیانہ کم مارا تھا۔ اس سے پوچھا جائے گا کیوں کم کیا؟ وہ کہے گا: تیرے بندے پر رحم کھا کر۔ اللہ فرمائے گا تو مجھ سے زیادہ رحم کرنے والا بن گیا ہے؟ اسے آتش کی طرف روانہ کرے گا۔ پھر ایک اور شخص لایا جائے گا جس نے ایک تازیانہ زیادہ مارا تھا۔ اس سے پوچھا جائے گا: تو نے زیادہ کیوں مارا؟ وہ کہے گا: تاکہ تیری نافرمانی سے باز آ جائے۔ فرمائے گا: تو مجھ سے زیادہ حکمت والا تھا۔ اسے بھی آتش کی طرف روانہ کیا جائے گا۔

۴۔ وَ لۡیَشۡہَدۡ عَذَابَہُمَا طَآئِفَۃٌ مِّنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ: مومنین کی ایک جماعت وہاں حاضر رہے تاکہ معاشرے میں اس جرم کے انجام بد کا شعور پھیلے اور لوگ باز آ جائیں۔ جس زانی نے چار گواہوں کی طرف سے گواہی دینے کی حالت میں زنا کا ارتکاب کر کے اپنا پردہ چاک کیا ہے اس کے لیے کسی قسم کی ستر پوشی نہیں ہے۔


آیت 2