آیت 3
 

اَلزَّانِیۡ لَا یَنۡکِحُ اِلَّا زَانِیَۃً اَوۡ مُشۡرِکَۃً ۫ وَّ الزَّانِیَۃُ لَا یَنۡکِحُہَاۤ اِلَّا زَانٍ اَوۡ مُشۡرِکٌ ۚ وَ حُرِّمَ ذٰلِکَ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۳﴾

۳۔ زانی صرف زانیہ یا مشرکہ سے نکاح کرے گا اور زانیہ صرف زانی یا مشرک سے نکاح کرے گی اور مومنوں پر یہ حرام کیا گیا ہے۔

تفسیر آیات

اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ زانی زناکاری میں مشہور ہو۔ اس پر حد بھی جاری ہو چکی ہو، پھر بھی اس نے توبہ نہ کی ہو، اس پر پاکدامن عورتیں حرام ہیں۔ وہ صرف اپنی طرح کی کسی زانی عورت یا مشرکہ سے شادی کر سکتا ہے۔

اسی طرح اگر ایک عورت زنا کاری میں شہرت رکھتی ہے، اس پر حد جاری ہو چکی ہے اور توبہ کے آثار نہیں ہیں۔ ایسی عورت پاکباز مردوں کے ساتھ شادی نہیں کر سکتی۔ اس کا کوئی زانی مرد یا مشرک ہی جفت ہو سکتا ہے۔ (المیزان)

چنانچہ احادیث بھی اس تفسیر کی تائید میں ہیں۔ حضرت امام باقر سے روایت ہے:

ہُمْ رِجَالٌ وَ نِسَائٌ کَانُوا عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ صلی اللہ علیہ وآلہ مَشْھُورِینَ بِالزِّنَا فَنَھَی اللہُ عَزَّ وَ جَلَّ عَنْ اُولَئِکَ الرِّجَالِ وَ النِّسَائِ وَ النَّاسُ الْیَوْمَ عَلَی تِلْکَ الْمَنْزِلَۃِ مَنْ شَہَرَ شَیْئاً مِنْ ذَلِکَ اَوْ اُقِیمَ عَلَیْہِ الْحَدُّ فَلَا تُزَوِّجُوہُ حَتَّی تُعْرَفَ تَوْبَتُہُ ۔ (الکافی ۵ـ: ۳۵۵)

یہ ایسے مردوں اور عورتوں کے بارے میں ہے جو عہد رسالت میں زنا کاری میں مشہور تھے۔ ایسے مردوں اور عورتوں کے بارے میں اللہ نے منع کیا ہے۔ آج بھی لوگوں کے لیے یہی صورت ہے کہ جو بھی ایسے امور کے ارتکاب میں شہرت رکھتا ہو یا اس پر حد جاری کی گئی ہو تو ایسے فرد کے ساتھ شادی نہ کرو جب تک توبہ نہ کرے۔

ہم اسی تفسیر پر اکتفا کرتے ہیں دیگر تفاسیر کے ذکر کی ضرورت نہیں ہے۔


آیت 3