آیات 1 - 3
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ الکہف

کہف غار کو کہتے ہیں۔ اس سورۃ مبارکہ میں اصحاب کہف کا ذکر ہے۔ اس لیے اس کا نام سورۃ الکہف ہو گیا۔

سبب نزول

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

کفار قریش نے تین افراد نضر بن حارث ، عقبہ بن ابی معیط اور عاص بن وائل کو نجران کے نصاریٰ کے پاس بھیجا تاکہ ان سے کچھ مسائل سیکھ لیں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا امتحان کریں۔ ان لوگوں نے یہود کے علماء سے ملاقات کی اور اپنی آمد کا مقصد بتایا۔ یہودیوں نے کہا: تین مسائل ان سے پوچھ لیں اگر جیسے ہم نے بتایا جواب دیں تو یہ سچے رسول ہیں۔ اس کے بعد ایک اور سوال کریں اگر جواب میں کہہ دیں کہ اس مسئلے کو میں جانتا ہوں تو سمجھ لینا یہ جھوٹے ہیں۔۔۔۔

اس روایت کی تفصیل آیت نمبر۹ کے ذیل میں آنے والی ہے۔

اس سورۃ مبارکہ میں تین اہم واقعات کا ذکر ہے:

i۔ اصحاب کے طویل خواب کا واقعہ

ii۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی رموزِ نظام الٰہی سے آگاہی کا واقعہ

iii۔ ذوالقرنین کی عالم گیری کا واقعہ

ان واقعات سے ناخواندہ عرب بے خبر تھے۔ اس لیے ان کے درمیان میں زندگی کرنے والی ایک ہستی کی طرف سے ان واقعات کو پوری وضاحت کے ساتھ بیان کرنے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت کا ثبوت موجود ہے اور قرآن کا وحی ہونا ثابت ہو جاتا ہے۔ یعنی جو سوالات انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جھوٹا ہونے کے ثبوت کے لیے اٹھائے تھے انہی سوالات سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کی صداقت ثابت ہو جاتی ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلٰی عَبۡدِہِ الۡکِتٰبَ وَ لَمۡ یَجۡعَلۡ لَّہٗ عِوَجًا ؕ﴿ٜ۱﴾

۱۔ ثنائے کامل اس اللہ کے لیے ہے جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل کی اور اس میں کسی قسم کی کجی نہیں رکھی۔

قَیِّمًا لِّیُنۡذِرَ بَاۡسًا شَدِیۡدًا مِّنۡ لَّدُنۡہُ وَ یُبَشِّرَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ الَّذِیۡنَ یَعۡمَلُوۡنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمۡ اَجۡرًا حَسَنًا ۙ﴿۲﴾

۲۔ نہایت مستحکم ہے تاکہ اس کی طرف سے آنے والے شدید عذاب سے خبردار کرے اور ان مومنین کو بشارت دے جو نیک عمل کرتے ہیں کہ ان کے لیے بہتر اجر ہے۔

مَّاکِثِیۡنَ فِیۡہِ اَبَدًا ۙ﴿۳﴾

۳۔ جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

تفسیر آیات

۱۔ اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ: حمد و ستائش ہے اس ذات کے لیے جس نے اپنے بندوں پر کتاب نازل فرمائی اللہ تعالیٰ کو عالمین کا پروردگار ہونے کی بنیاد پر لائق حمد و ثنا قرار دیتے ہیں:

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿﴾ (۱فاتحہ: ۲ )

ثنائے کامل اللہ کے لیے ہے جو سارے جہان کا پروردگار ہے۔

اور کبھی خالق ارض و سماء ہونے کے اعتبار سے

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ ۔۔۔۔ (۶انعام:۱ )

ثنائے کامل اللہ کے لیے ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔

نیز فرمایا:

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۔۔۔۔ (۳۵ فاطر:۱)

ثنائے کامل اللہ کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کا ایجاد کرنے والا ہے۔۔۔۔

اس جگہ قرآن نازل کرنے کے اعتبار سے حمد وثنا کا لائق قرار دیا جا رہا ہے۔ گویا نزول قرآن ایک نئی کائنات کی تخلیق اور جدید عالمین کی ایجاد ہے۔

۲۔ وَ لَمۡ یَجۡعَلۡ لَّہٗ عِوَجًا: اس میں کسی قسم کی کجی نہیں ہے۔ قیامت تک کے انسانوں کے لیے ایک قابل عمل ابدی دستور حیات ہے۔ یہ کسی زمانے کے لوگوں کے لیے ناقابل عمل ہونا تو دور کی بات ہے اس میں کسی قسم کی نامناسب شق بھی نہیں ہے۔

اس دستور حیات کی ہر شق قیامت تک آنے والے لوگوں کے لیے ابدی سعادت پر مشتمل، ناقابل تنسیخ اور پائیدار ہے جو کسی زمان و مکان کے وقتی تقاضوں سے متزلزل نہ ہو گی۔

۱۔ لِّیُنۡذِرَ بَاۡسًا شَدِیۡدًا: یہ کتاب تنبیہ اور بشارت جیسے اہم مضامین پر مشتمل ہے۔ اس کتاب ہدایت کو مسترد کرنے والوں کے لیے شدید عذاب کی تنبیہ ہے اور اس ہدایت کو قبول کرنے والوں کے لیے اجر حسن ہے جو دائمی ہے۔

اہم نکات

۱۔ قرآن ایک دستور قیم ہے۔ زمان و مکان اسے متاثر نہیں کر سکتے۔

۲۔ قرآن کا نزول ایک ایسی عظیم نعمت ہے جس کی بنا پر اللہ کی حمد و ستائش ضروری ہے۔


آیات 1 - 3