آیات 4 - 5
 

وَّ یُنۡذِرَ الَّذِیۡنَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا ٭﴿۴﴾

۴۔اور انہیں تنبیہ کرے جو کہتے ہیں کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنا لیا ہے۔

مَا لَہُمۡ بِہٖ مِنۡ عِلۡمٍ وَّ لَا لِاٰبَآئِہِمۡ ؕ کَبُرَتۡ کَلِمَۃً تَخۡرُجُ مِنۡ اَفۡوَاہِہِمۡ ؕ اِنۡ یَّقُوۡلُوۡنَ اِلَّا کَذِبًا﴿۵﴾

۵۔ اس بات کا علم نہ انہیں ہے اور نہ ان کے باپ دادا کو، یہ بڑی (جسارت کی) بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے، یہ تو محض جھوٹ بولتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ اللہ تعالیٰ کو جسم و جسمانی قرار دینا اور اللہ کے لیے وہی چیزیں ثابت کرنا جو جسم و جسمانی ہونے کی صورت میں حاصل ہو سکتی ہیں، شان الٰہی میں گستاخی ہے جس پر اللہ تعالیٰ کی گرفت بھی سخت ہوتی ہے۔ چنانچہ بنی اسرائیل نے جب یہ مطالبہ کیا کہ ہمیں اللہ علانیہ طور پر دکھا دو تو ان پر بجلی گری۔

۲۔ اس آیت میں خاص طور پر ذکر کیا کہ جو لوگ اللہ کی اولاد ہونے کے قائل ہیں۔ ان کی خصوصی طور پر تنبیہ ہو گی کیونکہ یہ کہنا کہ اللہ کے لیے اولاد ہے، اسے اللہ نے ’’بڑی جسارت ‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے: کَبُرَتۡ کَلِمَۃً تَخۡرُجُ مِنۡ اَفۡوَاہِہِمۡ ۔۔۔۔

دوسری جگہ فرمایا:

وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحۡمٰنُ وَلَدًا لَقَدۡ جِئۡتُمۡ شَیۡئًا اِدًّا تَکَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرۡنَ مِنۡہُ وَ تَنۡشَقُّ الۡاَرۡضُ وَ تَخِرُّ الۡجِبَالُ ہَدًّا اَنۡ دَعَوۡا لِلرَّحۡمٰنِ وَلَدًا (۱۹ مریم۔۸۸ تا ۹۱)

اور وہ کہتے ہیں: رحمن نے کسی کو فرزند بنا لیا ہے۔ بتحقیق تم بہت سخت بیہودہ بات (زبان پر) لائے ہو۔ قریب ہے کہ اس سے آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر گر جائیں۔اس بات پر کہ انہوں نے رحمن کے لیے فرزند (کی موجودگی) کا الزام لگایا ہے۔

اہم نکات

۱۔ خالق کو اپنی مخلوق کی سطح پر لانا شان الٰہی میں سب سے بڑی گستاخی اور جرم ہے۔


آیات 4 - 5