آیت 9
 

وَ عَلَی اللّٰہِ قَصۡدُ السَّبِیۡلِ وَ مِنۡہَا جَآئِرٌ ؕ وَ لَوۡ شَآءَ لَہَدٰىکُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ﴿٪۹﴾

۹۔اور سیدھا راستہ (دکھانا) اللہ کے ذمے ہے اور بعض راستے ٹیڑھے بھی ہیں اور اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت کرتا ۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ عَلَی اللّٰہِ قَصۡدُ السَّبِیۡلِ میں مضاف محذوف ہے۔ بیان قَصۡدُ السَّبِیۡلِ ہے اور قصد وہ راستہ ہے جو منزل تک پہنچا دے۔ کہا جاتا ہے: طریق قاصد ۔ اگر راستہ منزل تک پہنچانے والا ہو (قرطبی)۔

وَ عَلَی اللّٰہِ: مادی نعمتوں کے ذکر کے بعد روحانی نعمت کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر لازم قرار دیا کہ سیدھا راستہ دکھایا جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فطرت اور شریعت دونوں کے ذریعے انسان کی ہدایت کا سامان فراہم فرمایا۔ فطرت کے ذریعے خود انسان کے وجود، اس کی ساخت و بافت میں ہدایت ودیعت فرمائی:

قَالَ رَبُّنَا الَّذِیۡۤ اَعۡطٰی کُلَّ شَیۡءٍ خَلۡقَہٗ ثُمَّ ہَدٰی﴿﴾ ۔ (۲۰ طہٰ: ۵۰)

ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی خلقت بخشی پھر ہدایت دی۔

وَ نَفۡسٍ وَّ مَا سَوّٰىہَا ۪﴿﴾ فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا ۪﴿﴾ (۹۱ شمس: ۷۔۸)

اور قسم ہے نفس کی اور اس کی جس نے اسے معتدل کیا پھر اس نفس کو اس کی بدکاری اور اس سے بچنے کی سمجھ دی۔

اسی طرح راستہ دکھا کر اس انسان کو آزاد چھوڑ دیا کہ خود مختارانہ طریقہ پر یہ اپنے راستے کا خود انتخاب کرے:

اِنَّا ہَدَیۡنٰہُ السَّبِیۡلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّ اِمَّا کَفُوۡرًا﴿﴾ ( ۷۶ دھر: ۳)

ہم نے اسے راستے کی ہدایت کر دی خواہ شکر گزار بنے اور خواہ ناشکرا۔

اِنَّ عَلَیۡنَا لَلۡہُدٰی ﴿۫﴾ ( ۹۲لیل :۱۲)

راستہ دکھانا یقینا ہماری ذمہ داری ہے۔

ثُمَّ السَّبِیۡلَ یَسَّرَہٗ ﴿﴾ ( ۸۰ عبس: ۲۰)

پھر اس کے لیے راستہ آسان بنا دیا۔

۲۔ وَ لَوۡ شَآءَ لَہَدٰىکُمۡ: چنانچہ امتحان اور استحقاق کے لیے ضروری تھا کہ انسان خود مختار ہو۔ اگر جبری ہدایت، منشائے خداوندی ہوتی تو سب کی ہدایت ہو جاتی مگر اس جبری ہدایت کی قیمت کچھ نہ ہوتی۔ جیسے بے حس پتھر، جسے آپ جہاں چاہے رکھ دیں یا ایک گدھا، جسے جہاں چاہیں باندھ دیں۔ صاحب تفسیر مراغی وَ لَوۡ شَآءَ لَہَدٰىکُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ کے ذیل میں لکھتے ہیں:

اگر اللہ چاہتا تو تمہیں اپنی اجتماعی زندگی میں چیونٹی اور شہد کی مکھی کی طرح بنا دیتا یا فرشتوں کی طرح صرف عبادت کی صلاحیت دے کر خلق فرماتا۔ پھر تم معصیت کی طرف رخ کرتے نہ ہی شر تم سے صادر ہوتا۔ اللہ نے چاہا ہے کہ تم خود مختاری کے ساتھ اپنے اعمال انجام دو۔ واضح رہے انسان کا اپنے عمل میں خود مختار ہونا، نہ جبر ہے، نہ تفویض۔ یہ شیعہ مسلمہ عقیدہ ہے۔

اہم نکات

۱۔ راہ راست پر لانے کے لیے اللہ جبر نہیں کرتا۔

۲۔ ہدایت و رہنمائی کو اللہ نے اپنے ذمے لیا ہے۔


آیت 9