آیات 12 - 13
 

وَ سَخَّرَ لَکُمُ الَّیۡلَ وَ النَّہَارَ ۙ وَ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ ؕ وَ النُّجُوۡمُ مُسَخَّرٰتٌۢ بِاَمۡرِہٖ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّعۡقِلُوۡنَ ﴿ۙ۱۲﴾

۱۲۔ اور اس نے تمہارے لیے رات اور دن اور سورج اور چاند کو مسخر کیا ہے اور ستارے بھی اس کے حکم سے مسخر ہیں،عقل سے کام لینے والوں کے لیے ان چیزوں میں یقینا نشانیاں ہیں۔

وَ مَا ذَرَاَ لَکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ مُخۡتَلِفًا اَلۡوَانُہٗ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوۡمٍ یَّذَّکَّرُوۡنَ﴿۱۳﴾

۱۳۔ اور تمہارے لیے زمین میں رنگ برنگ کی جو مختلف چیزیں اگائی ہیں نصیحت حاصل کرنے والوں کے لیے ان میں یقینا نشانی ہے۔

تشریح کلمات

ذَرَاَ:

( ذ ر ء ) الذرء کے معنی ہیں ، اللہ نے جس چیز کا ارادہ کیا اسے ظاہر کر دیا۔

تفسیر آیات

۱۔ اللہ تعالیٰ کے رب اور مدبر کائنات ہونے پر آیات ۱۱، ۱۲، ۱۳ میں تین دلائل دیے گئے ہیں۔ پہلی دلیل نباتات سے دی گئی۔ یہ اہل فکر کے لیے ہے۔ دوسری دلیل فلکیات سے اہل عقل کے لیے دی گئی۔ تیسری دلیل انواع و اقسام کی موجودات ارضی، اہل نصیحت کے لیے ہے۔ حضرت علامہ طباطبائیؒ اس جگہ فرماتے ہیں:

پہلی دلیل، سادہ مقدمات پر مشتمل ہونے کی وجہ سے عام انداز فکر سے نتیجہ اخذ ہو سکتا ہے۔ جب کہ دوسری دلیل کا علمی مقدمات پر مشتمل ہونے کی وجہ سمجھنا صرف ان لوگوں کے لیے ممکن ہے جو اجرام فلکی میں غور کرتے ہیں اور ان کی حرکت و انتقال پر عقل کو بروئے کار لاتے ہیں۔ تیسری دلیل کے کلی مقدمات پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اس کی تہہ تک وہ لوگ پہنچ سکتے ہیں جو وجود اور اس کے کلی معاملات کو ذہن میں رکھیں۔ مثلاً ایک تغیر پذیر پیدائش کے لیے مادے کی ضرورت ہے۔ ( المیزان ذیل آیت)

ان آیات میں مذکور باتوں میں صاحبان فکر و عقل اور ذکر و نصیحت کے لیے دلائل اور نشانیاں ہیں کہ اس کائنات کی تدبیر اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اسی نے مذکورہ چیزیں تمہاری زندگی کے لیے بنائی ہیں۔

۲۔ وَ النُّجُوۡمُ مُسَخَّرٰتٌۢ بِاَمۡرِہٖ: سورج چاند اور دن رات کے لیے فرمایا: لَکُمُ تمہارے لیے مسخر ہیں لیکن النجوم کی تسخیر کے لیے لَکُمُ تمہارے لیے نہیں فرمایا بلکہ مُسَخَّرٰتٌۢ بِاَمۡرِہٖ فرمایا۔ اس سے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ ستارے انسانوں کے لیے مسخر نہیں ہیں۔ بعض کے نزدیک ستارے بھی مسخر ہیں کہ ستاروں کے ذریعہ سمندری اور صحراؤں کے سفر میں ستاروں سے سمت اور راستے کا علم ہو جاتا ہے جو ایک قسم کی تسخیر ہے۔

اقول : ستارے کلی نظام عالم کے لیے چاند سورج کی طرح اہم ہیں۔ اگر ستارے درہم برہم ہو جائیں تو صرف چاند سورج سے نظام قائم نہیں رہ سکتا۔ لہٰذا نجوم بھی ہمارے نظام وجود کے لیے مسخر ہیں۔

۳۔ مُخۡتَلِفًا اَلۡوَانُہٗ: بعض فرماتے ہیں رنگوں کے اختلاف سے مراد انواع و اقسام ہوسکتے ہیں۔ مُخۡتَلِفًا اَلۡوَانُہٗ کا مطلب مختلفاً انواعہ ہو سکتا ہے۔ چونکہ رنگ کے اختلاف سے چیز کی نوعیت میں بھی اختلاف آ جاتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ آیات الٰہی سے استفادے کے لیے تعقل، تفکر اورتذکر شرط ہے۔

۲۔ اختلاف انواع اللہ کی نشانی ہے۔


آیات 12 - 13