آیت 1
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ الفلق

سورۃ الفلق و سورۃ الناس۔

اکثرکے نزدیک یہ معوذتین مکی ہیں۔

فضیلت: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے:

انزلت علی ایات لم ینزل مثلھن المعوذتان۔ (مجمع البیان ۱۰: ۸۶۵)

مجھ پر چند آیات ایسی نازل ہوئی ہیں اس طرح کی آیات نازل نہیں ہوئی تھیں وہ معوذتین ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان دونوں سورتوں سے حسنین علیہا السلام کے لیے تعویذ بناتے تھے۔

قرآنی حیثیت: ان دونوں سورتوں کے قرآن کا حصہ ہونے پر تمام مسلمانوں کا اجماع و اتفاق ہے اور عصر رسولؐ سے لے کر آج تک تواتر سے ثابت ہے یہ قرآن کا حصہ ہیں۔ یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز میں ان دونوں سورتوں کی تلاوت فرماتے تھے جس سے ان دونوں کی قرآنیت میں کوئی شک باقی نہیں رہتا۔

یہاں ان دو سورتوں کی قرانیت کے بارے میں ایک سوال پیدا ہوا۔ وہ اس لیے کہ صحیح السند روایات سے یہ بات ثابت اور محقق ہے کہ عبد اللہ بن مسعود جیسے جلیل القدر صحابی ان دو سورتوں کو قرآن کا حصہ نہیں سمجھتے۔

چنانچہ یہ بات امام احمد، طبرانی، ابونعیم اور ابن حبان وغیرہم نے متعدد اسناد اور بیشتر صحیح اسناد سے نقل کی ہے جس سے اس بات میں کوئی شبہ نہیں رہتا کہ ابن مسعود کا یہ موقف تھا۔

عبد اللہ بن مسعود کے اس موقف سے قرآن کے تحریف سے محفوظ ہونے کا موقف مخدوش نہیں ہوتا چونکہ قرآن تواتر سے ثابت ہے۔ اس تواتر میں معوذتین بھی شامل ہیں۔ اس سے جو نظریہ مخدوش ہوتا ہے وہ ہے اصحاب کو بے خطا سمجھنے والا نظریہ اور یہ نظریہ کہ اصحاب کی خطاؤں کی نشاندہی کرنا توہین صحابہ ہے۔

چنانچہ یہاں صحیح موقف یہ ہے کہ عبد اللہ بن مسعود کے موقف سے قرآن کی تحریف سے مصونیت یعنی عدم تحریف کا نظریہ مخدوش نہیں ہوتا بلکہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ عبد اللہ بن مسعود سے غلطی سرزد ہوئی اور یہ نظریہ ان کی اپنی ذاتی رائے ہے۔ چنانچہ ابن مسعود اپنی اس رائے کی سند کے طور پر کوئی حدیث نقل نہیں کرتے۔

چنانچہ اس مسئلہ کے جواب میں صحیح موقف یہی ہے کہ اس موقف کو عبد اللہ بن مسعود کی غلطی تسلیم کیا جائے۔

مروی ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے عبد اللہ بن مسعود کے اسی موقف کے بارے میں سوال ہوا تو جواب میں آپ نے فرمایا: اَخْطأَ ابْنُ مَسْعُودٍ۔ (الوسائل ۶: ۱۱۵۔ البرھان) ابن مسعود خطا کے مرتکب ہوئے ہیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قُلۡ اَعُوۡذُ بِرَبِّ الۡفَلَقِ ۙ﴿۱﴾

۱۔ کہدیجئے: میں صبح کے رب کی پناہ مانگتا ہوں،

تفسیر آیات

۱۔ اَعُوۡذُ: پناہ مانگتا ہوں۔ پناہ وہ مانگتا ہے جو خوف محسوس کرتا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ جس سے خوف ہے اس سے وہ خود نہیں بچ سکتا۔ اس لیے کسی ایسی ذات کی پناہ میں جاتا ہے جو اسے بچا سکتی ہے۔

اس آیت میں یہ فرمایا: کہدیجیے! میں پناہ مانگتا ہوں الۡفَلَقِ کے رب کی۔ فلق کے لغوی معنی شگافتہ کرنے، پھاڑنے کے ہیں۔ اکثر مفسرین نے اسے صرف صبح پر تطبیق کیا ہے۔ یہ بھی پردۂ شب کو پھاڑنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی صبح کے لیے خصوصی طور پر فَالِقُ الۡاِصۡبَاحِ (۶ انعام: ۹۶) فرمایا۔ وہ صبح کا شگافتہ کرنے والا ہے لیکن یہ الۡفَلَقِ کو صرف صبح کے ساتھ مخصوص کرنے کے لیے قرینہ نہیں بنتا چونکہ اللہ تعالیٰ نے فَالِقُ الۡحَبِّ وَ النَّوٰی (۶ انعام: ۹۵) بھی کہا ہے۔ وہ دانے اور گٹھلی کو شگافتہ کرنے والا ہے۔ لہٰذا بہتر یہ ہے کہ ہم الۡفَلَقِ سے مطلق شگافتہ کرنا مرادلیں کہ وہ تاریکی کو، دانے کو ، گھٹلی کو شگافتہ کرنے والا ہے۔ وہ جانور جو تخم سے، رحم سے نکل آتے ہیں، چشمے زمین کو شگافتہ کر کے نکلتے ہیں اور لاکھوں چیزیں جو عناصر کی ترکیب سے گوناگون پردوں کو چیر کر عرصۂ وجود میں قدم رکھتی ہیں بلکہ کائنات میں جو رونق خلق و ایجاد ہے وہ فلق سے ہے۔

اب پناہ مانگ ایسی ذات کی جو اس بات پر قدرت رکھتی ہے کہ سینہ ظلمت چیر کر خلق و ایجاد سے اس کائنات کو منور کرتی ہے۔


آیت 1