آیات 1 - 2
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ یونس

یہ سورہ مکہ میں نازل ہوا اور مضمون سورہ سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ مکی زندگی کے اواخر میں نازل ہوا ہو گا جب مسلمانوں پر سختیوں میں اور اضافہ ہوا ہے، جس کی بنا پر مسلمانوں کو فتح و نصرت کی نوید دی جاتی تھی:

وَ لَا یَرۡہَقُ وُجُوۡہَہُمۡ قَتَرٌ وَّ لَا ذِلَّۃٌ (یونس: ۲۶)

ان کے چہروں پر نہ سیاہ دھبہ ہو گا اور نہ ذلت (کے آثار)۔

دوسرا قرینہ یہ ہے کہ اس سورہ سے پہلے قرآن کا ایک معتدبہ حصہ نازل ہو چکا تھا۔ چنانچہ منکرین کا یہ مطالبہ اسی سورہ میں ہے:

ائۡتِ بِقُرۡاٰنٍ غَیۡرِ ہٰذَاۤ اَوۡ بَدِّلۡہُ (۱۰ یونس : ۱۵)

اس قرآن کے سوا کوئی اور قرآن لے آؤ یا اس کو بدل دو۔

اور اسی سورہ میں قرآن کا وہ چیلنج بھی ہے جو منکرین کے سامنے رکھ دیا گیا۔

مضامین

اس سورہ میں باقی سورہ ہائے مکی کی طرح اصول عقائد کے بارے میں مباحث ملتے ہیں۔ توحید، نبوت، حیات اخروی، ان پر منکرین کی طرف سے عائد کردہ شہادت کا جواب اور انبیاء علیہم السلام کی تاریخ ساز تحریک توحید اور ان کے مقابلے میں آنے والے منکرین کا ذکر۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

الٓرٰ ۟ تِلۡکَ اٰیٰتُ الۡکِتٰبِ الۡحَکِیۡمِ﴿۱﴾

۱۔ الف لام را۔یہ اس کتاب کی آیات ہیں جو حکمت والی ہے۔

اَکَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا اَنۡ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی رَجُلٍ مِّنۡہُمۡ اَنۡ اَنۡذِرِ النَّاسَ وَ بَشِّرِ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنَّ لَہُمۡ قَدَمَ صِدۡقٍ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ؕؔ قَالَ الۡکٰفِرُوۡنَ اِنَّ ہٰذَا لَسٰحِرٌ مُّبِیۡنٌ﴿۲﴾

۲۔ کیا لوگوں کے لیے یہ تعجب کی بات ہے کہ ہم نے خود انہیں میں سے ایک شخص کی طرف وحی بھیجی کہ لوگوں کو تنبیہ کرے اور جو ایمان لائیں انہیں بشارت دے کہ ان کے لیے ان کے رب کے پاس سچا مقام ہے، (اس پر) کافروں نے کہا: یہ شخص تو بلاشبہ صریح جادوگر ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اَکَانَ لِلنَّاسِ: معاندین اور منکرین کے خیالات کے بر خلاف یہ کتاب حکمت آمیز باتوں سے پر ہے۔ نہ شاعرانہ تخیلات کا مجموعہ ہے، نہ زبانی جادوگری ہے بلکہ یہ قرآن حکیمانہ باتوں کی طرف لوگوں کی توجہ مبذدل کراتا ہے۔ لوگوں کو فکر و نظر کی دعوت دیتا ہے۔ عقل و استدلال اور منطق کو قیمت دیتا ہے۔ لوگوں کے باطل رجحانات کو فروغ دے کر ان کا استحصال نہیں کرتا بلکہ باطل نظریات کا مقابلہ کر کے لوگوں کی حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔

۲۔ تقریباً تمام انبیاء کے خلاف لوگوں نے ایک سوال اٹھایا ہے:

اَبَعَثَ اللّٰہُ بَشَرًا رَّسُوۡلًا (۱۷ بنی اسرائیل: ۹۴)

کیا اللہ نے ایک بشر کو رسول بنا کر بھیجا ہے؟

اَبَشَرٌ یَّہۡدُوۡنَنَا (۶۴ تغابن: ۶)

کیا بشر ہماری ہدایت کرتے ہیں ؟

یہ لوگ نہ وحی کو سمجھ سکے، نہ انسانی مقام و منزلت کو، وہ اپنے خیال میں انسان کو اس بات کا اہل نہیں سمجھتے تھے کہ وہ اللہ کا نمائندہ بنے اور اگر وہ کسی انسان کو اس بات کا اہل سمجھتے بھی تو وہ اپنے جاہلی معیار کے انسان کو یہ اہلیت دینے کے لیے آمادہ تھے:

وَ قَالُوۡا لَوۡ لَا نُزِّلَ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنُ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الۡقَرۡیَتَیۡنِ عَظِیۡمٍ﴿﴾ (۴۳ زخرف: ۳۱)

اور کہتے ہیں : یہ قرآن دونوں بستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہیں کیا گیا؟

اور کہتے تھے کہ اللہ کو اپنا نمائندہ اور رسول بنانے کے لیے ابو طالب کے یتیم کے علاوہ کو ئی نہیں ملا۔(اس آیت کی شان نزول میں حضرت ابن عباس کی روایت کے یہ الفاظ ہیں۔ قرطبی ۸: ۳۰۶)

وحی کی حقیت اگرچہ بعض حضرات نے سائنس کے دائرے میں سمجھنے کی کوشش کی ہے لیکن یہ بات تمام محققین کے پیش نظر رہنی چاہیے کہ تجرباتی علوم کو ان چیزوں کے بارے میں نفیاً و اثباتاً نظریہ قائم کرنے کا حق پہنچتا ہے جو اس کے دائرہ کار میں ہیں اور ان کے تجرباتی ذرائع و وسائل کے لیے مسخر ہیں اور جو چیزیں سائنس کے لیے مسخر نہیں ہیں ، ان میں وہ نہ اثبات میں کوئی نظریہ قائم کر سکتے ہیں ، نہ نفی میں۔ اگر وہ اس میں کوئی نظریہ، خواہ وہ اثبات میں ہو یا نفی میں ، قائم کریں تو ان کی یہ بات غیر تجرباتی ہو گی۔

۳۔ اِلٰی رَجُلٍ: انہیں ایک فرد کی طرف وحی بھیجنے پر تعجب ہے حالانکہ یہ رَجُلٍ ان کے درد، دکھ، بھوک، پیاس میں شریک ہو کر ان کو الٰہی قدروں سے روشناس کراتا، ان قدروں کے ماننے والوں کو بشارت اور منکرین کی تنبیہ کرتا ہے۔ یہ رَجُلٍ ضرور ہے مگر یہ ملکوتی رجل ہے۔ وہ نور مجسم ہے جس پر رجولیت کو فخر ہے۔

۴۔ اَنَّ لَہُمۡ قَدَمَ صِدۡقٍ: قَدَمَ سے مراد مقام و منزلت ہی ہو سکتی ہے۔ چنانچہ محاورہ میں جس کا کردار تابناک ہو، اس کے بارے میں لفظ قَدم استعمال کرتے ہیں اور کہتے ہیں لہ قدم فی الخیر۔ اگر کردار تابناک نہ ہو تو لہ قدم فی السوٓء نہیں کہتے قدم کے ساتھ صدق کے اضافے سے یہ مقام اور اونچا ہونا ثابت ہوتا ہے۔

۵۔ پوری تاریخ میں منکرین نے ہمیشہ انبیاء کو ساحر کہا ہے۔ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی انہی باتوں کا سامنا کرنا پڑا جو تمام انبیاء کو پیش آتی رہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ منکرین کی طرف سے جادوگر ہونے کے الزام میں اس بات کا اعتراف ہے کہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات عام بشری سطح سے بالا تر ہے اور جو قرآن آپ نے پیش کیا ہے وہ بھی ایک ما فوق العادہ امر ہے۔ البتہ اس کو جادو کہنا ایک بے جا بہتان ہے اور رسالت کے انکار کے لیے ان کا ایک بہانہ ہے۔

وَ لَمَّا جَآءَہُمُ الۡحَقُّ قَالُوۡا ہٰذَا سِحۡرٌ وَّ اِنَّا بِہٖ کٰفِرُوۡنَ﴿﴾ (۴۳ زخرف: ۳۰)

اور جب حق ان کے پاس آیا تو کہنے لگے: یہ تو جادو ہے، ہم اسے نہیں مانتے۔

اہم نکات

۱۔ روحانیت سے عاری مادی ذہن میں وحی کا مفہوم ٹھہر نہیں سکتا۔ اَکَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا اَنۡ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی رَجُلٍ مِّنۡہُمۡ ۔۔۔

۲۔ مؤمن کے لیے ثواب آخرت کی ضمانت دی جاتی ہے۔ اَنَّ لَہُمۡ قَدَمَ صِدۡقٍ ۔۔۔۔


آیات 1 - 2