آیت 3
 

اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ ؕ مَا مِنۡ شَفِیۡعٍ اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ اِذۡنِہٖ ؕ ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمۡ فَاعۡبُدُوۡہُ ؕ اَفَلَا تَذَکَّرُوۡنَ﴿۳﴾

۳۔ یقینا تمہارا رب وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر اس نے عرش پر اقتدار قائم کیا، وہ تمام امور کی تدبیر فرماتا ہے، اس کی اجازت کے بغیر کوئی شفاعت کرنے والا نہیں ہے، یہی اللہ تو تمہارا رب ہے پس اس کی عبادت کرو، کیا تم نصیحت نہیں لیتے؟

تفسیر آیات

۱۔ کائنات کو چھ مختلف مرحلوں میں پیدا کرنے کے بعد وہ عرش سلطنت پرمتمکن ہوا۔ کوئی چیز اس کے قبضہ اقتدار اور تدبیر سے خارج نہیں ہے اور اس کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ کے تحت ہو رہا ہے۔ اس کے حکم و تدبیر یا اس کے اذن سے ہو رہا ہے اور اس کائنات کی تدبیر و تنظیم کا وہی منتہی ہے۔ اگر کوئی کام اس کے اذن سے ہوتا ہے مثلاً شفاعت تو بھی مرکز و مصدر، تنظیم و تدبیر وہی ذات ہے۔

۲۔ یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ: یہ جملہ حالیہ ہے۔ کائنات کے جملہ امور کی تدبیر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ عرش پر متمکن ہوا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عرش اللہ تعالیٰ کے مقام مدّبریت کا نام ہے۔ چونکہ کائنات وجوداً و بقاء ًاللہ کی محتاج ہے۔

۳۔ مَا مِنۡ شَفِیۡعٍ اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ اِذۡنِہٖ: مشرکین کے معبودوں کی شفاعت کی نفی ہے کہ شفاعت صرف وہ کر سکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اذن حاصل ہو۔ کوئی از خود شفاعت نہیں کر سکتا۔ اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ اِذۡنِہٖ سے ان ہستیوں کی شفاعت کی طرف اشارہ ہے جو باذن خدا شفاعت کر سکتی ہیں۔

۴۔ ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمۡ: یہی تو تمہارا رب ہے، خالق ارض و سماء ۔ عرش پر اقتدار قائم کرنے والا، الۡاَمۡرَ کی تدبیر کرنے والا ہی تمہارا رب ہے۔ اس آیت اور اس قسم کی دیگر متعدد آیات میں قرآن واضح اور غیر مبہم لفظوں میں رب کی تعریف بیان فرماتا ہے۔

۵۔ فَاعۡبُدُوۡہُ: پس اسی رب کی عبادت کرو۔ عبادت کی تعریف یہی ہے کہ کسی ذات کو رب اور خالق سمجھ کر اس کی تعظیم کی جائے۔ مشرکین جو اپنے بتوں کے سامنے تعظیم کرتے تھے، اس لیے مشرک ہیں کہ وہ ان بتوں کو رب سمجھ کر ان کی تعظیم کرتے تھے۔

کائنات کو چھ دنوں میں پیدا کرنے، عرش اور مستوی کی مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ اعراف: ۵۴۔

اہم نکات

۱۔ شفیع وہ ہے جس پر اللہ کی نظر انتخاب ہو۔ مَا مِنۡ شَفِیۡعٍ اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ اِذۡنِہٖ ۔۔۔۔

۲۔ بندگی اس رب کی ہونی چاہیے جس کے ہاتھ میں تدبیر و اذن ہے۔ ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمۡ فَاعۡبُدُوۡہُ ۔۔۔

۳۔ اللہ کی ماذون ہستیوں کی طرف رجوع کرنا اذن الٰہی پر عمل ہے، شرک نہیں۔


آیت 3