آیت 3
 

الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَیۡبِ وَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ۙ﴿۳﴾

۳۔ جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں نیز جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

تشریح کلمات

یُقِیۡمُوۡنَ:

(ق و م ) اقامۃ سے ہے۔ یہ لفظ کسی ذمہ داری کی ادائیگی اور اس پر کاربند رہنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ لِلّٰہِ ۔۔۔۔ {۵ مائدہ : ۸۔ ’’ اللہ کے لیے بھرپور قیام کرنے والے بن جاؤ۔ ‘‘}

الصَّلٰوۃَ:

( ص ل و ) اکثر ماہرین لغت کے نزدیک صلوٰۃ کا لغوی معنی ’’دعا ‘‘ ہے اور شرعی اصطلاح میں صلوٰۃ رکوع و سجود پر مشتمل عبادت یعنی ’’ نماز ‘‘ سے عبارت ہے۔ یہ امر تحقیق طلب ہے کہ لفظ صلوٰۃ عربی ہے یا عبرانی۔ میرے نزدیک یہ عبرانی لفظ ہے اور قدیم بابلی عہد میں سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسے رکوع و سجود پر مشتمل عبادت کے لیے استعمال کیا۔ چنانچہ عبرانی میں عبادت گاہ کو صلوتا کہا جاتا ہے اور یہودی بھی اپنی عبادت گاہ کو صلوتا کہتے ہیں۔ بعض محققین کے نزدیک بعید نہیں کہ انگریزی کا لفظ salute اسی سے ماخوذ ہو۔ قرآن میں ارشاد ہوا:

وَ لَوۡ لَا دَفۡعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعۡضَہُمۡ بِبَعۡضٍ لَّہُدِّمَتۡ صَوَامِعُ وَ بِیَعٌ وَّ صَلَوٰتٌ وَّ مَسٰجِدُ یُذۡکَرُ فِیۡہَا اسۡمُ اللّٰہِ کَثِیۡرًا {۲۲ حج :۴۰}

اور اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے روکے نہ رکھتا تو راہبوں کی کوٹھڑیوں اور گرجوں اور عبادت گاہوں اور مساجد کو جن میں کثرت سے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے منہدم کر دیا جاتا۔

بعد میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ذریعے یہ لفظ عربی میں داخل ہوا۔ چنانچہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام جو عبادت بجا لاتے تھے، وہ رکوع و سجود پر مشتمل تھی:

وَ عَہِدۡنَاۤ اِلٰۤی اِبۡرٰہٖمَ وَ اِسۡمٰعِیۡلَ اَنۡ طَہِّرَا بَیۡتِیَ لِلطَّآئِفِیۡنَ وَ الۡعٰکِفِیۡنَ وَ الرُّکَّعِ السُّجُوۡدِ﴿﴾ ۔ {۲ بقرہ: ۱۲۵۔}

اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل پر یہ ذمے داری عائد کی کہ تم دونوں میرے گھر کو طواف، اعتکاف اور رکوع سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔

سابقہ بیان سے یہ بات واضح ہو گئی کہ لفظ صلوٰۃ اصل میں حضرت اسماعیل (ع) کی رکوع و سجود والی عبادت کا نام تھا، جوبعد میں دعا کے معنی میں استعمال ہونے لگا، لیکن اسلام نے اسے دوبارہ رکوع و سجود والی عبادت ابراہیمی کے لیے مخصوص کر دیا۔

الرزق:

(ر ز ق) رزق عطائے جاری کو کہتے ہیں: الرِزْقُ یُقَالُ لِلْعَطَائِ الْجَارِیْ {مفردات راغب اصفہانی}

ینفقون:

( ن ف ق ) انفاق، نفق سے ہے، جس کے معنی دونوں طرف سے کھلی سرنگ یا گلی ہے۔

مال ہاتھ میں آکر خرچ ہو جا ئے تویہ انفاق کہلاتا ہے۔ شرعی اصطلاح میں دو رخی اختیار کرنے کو نفاق کہا جاتا ہے۔کیونکہ منافق دین میں ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے دروازے سے نکل جاتا ہے یا جس طرح سرنگ کے دو دہانے ہوتے ہیں، اسی طرح منافق کے بھی دو چہرے ہوتے ہیں۔

تفسیر آیات

الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَیۡبِ: ایمان ’’ امن ‘‘ (سلامتی)سے ماخوذ ہے۔ کیونکہ ایمان باللہ ابدی ہلاکت سے سلامتی اور بچاؤ کا موجب ہے یا ایمان باللہ سے قلب و ضمیر کو امن و سکون ملتا ہے۔ پھر چونکہ ایمان کے بھی درجات ہیں، یعنی قلب کا ایمان (تصدیق)، زبان کا ایمان (اقرار) اور اعضائے بدن کا ایمان (عمل)، لہٰذا کامل ایمان وہ ہو گا جو ان سب کامجموعہ ہو۔ چنانچہ امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے:

الْایمَانُ ھَوَ الْاِقرٰارُ بِالْلِسَانِ وَ عَقْدٌ فِی الْقَلْبِ وَ عَمَلٌ بِالْاَرکَانِ۔ } اصول الکافی ۲ : ۲۷}

ایمان زبان سے اقرار، دل سے تصدیق اور اعضاء و جوارح سے عمل کرنے سے عبارت ہے۔

غیب مشہود و محسوس کی ضد ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ، وحی، فرشتوں اور دینی عقائد و اصول وغیرہ کا تعلق ماورائے محسوسات سے ہے۔ ان پر ایمان لانا اور انہیں تسلیم کرنا ہی ’’ایمان بالغیب‘‘ ہے۔

الحادی نظریات رکھنے والوں کے نزدیک صرف ان امور پر ایمان لانا درست ہے جو محسوس، مادی اور قابل تجربہ ہوں۔ ماورائے محسوسات چونکہ تجربے کے دائرے سے باہر ہیں اس لیے ان پرا یمان لانا درست نہیں، حالانکہ :

اولاً: ان کا یہ استدلال خود غیر حسی اور غیر تجرباتی ہے اگر غیر محسوس امور کی کوئی حقیقت نہیں تو خود یہ دلیل بھی فاسد ہے۔

ثانیاً: غیر محسوس اور غیر تجرباتی اصو لوں کو تسلیم نہ کیا جائے تو بہت سے حقائق سربستہ رہیں گے کیونکہ حس و تجربہ ہر جگہ کلی طور پر دلیل نہیں بن سکتے، بلکہ صرف ان محدود امور کے لیے دلیل بن سکتے ہیں جن پر تجربہ ہوا ہو۔

ثالثاً: اگر معلول سے علت اور آثار سے مؤثرکا وجود ثابت نہیں ہوتا تو کوئی شے ثابت نہ ہو سکے گی۔ کیونکہ آثار مشہود ہوتے ہیں اور مؤثر غیبت میں۔ عمارت مشہود ہوتی ہے، مگر معمار غائب۔ نقوش قدم مشاہدے میں آتے ہیں، جب کہ راہرو نظروں سے اوجھل بھی ہو جاتے ہیں۔

رابعاً: اگر صرف حس و تجربہ ہی دلیل وجود ہے تو ملحدین کو ماورائے حس پر نفیاً و اثباتاً کو ئی نظریہ قائم ہی نہیں کرنا چاہیے۔ چونکہ اگر صرف تجربہ دلیل ہو تو غیر تجربی بات نہ تو ماورائے حس کے اثبات کے لیے دلیل ہے اور نہ نفی کے لیے، لہٰذا وہ ماورائے حس کی نفی نہیں کر سکتے۔ حالانکہ یہ لوگ ماورائے حس کی نفی کرتے ہیں۔ اس طرح یہ لا شعوری طور پر ماورائے حس میں قدم رکھتے ہیں (اگرچہ اس کی نفی کے لیے ہی سہی) اور حس و تجربے کی حدود سے نکل جاتے ہیں اور یہ ان کی طرف سے ماورائے حس کا عملی اعتراف ہے۔ مختصر یہ کہ مادہ پرست کا مضطرب اور غیر مطمئن ذہن ماورائے حس کو سمجھنے سے قاصر ہے، کیونکہ پرسکون جھیل ہی ابر و کوہ کے صحیح خد و خال کو منعکس کرتی ہے، جب کہ ایک مضطرب و متلاطم جھیل اپنے اردگرد کے دلکش مناظر کی عکاسی کرنے سے عاجز ہوتی ہے۔

ایمان باللہ کے فطری ہونے پر انشاء اللہ آئندہ صفحات میں ہم تفصیلی بحث کریں گے۔

وَيُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ: نماز دین کا ستون اور معراج مومن ہے جو لا تترک بحال کسی حالت میں بھی نہیں چھوڑی جا سکتی۔

فَاِنْ قُبِلَتْ قُبِلَ مَا سِوَیٰھٰا وَ اِنْ رُدَّتْ رُدّٰ مَا سِوَیٰھَا ۔ {فلاح السائل ص ۱۲۷}

اگر نماز قبول ہوئی تو دیگر عبادات بھی قبول اور اگر یہ رد ہو گئی تو دیگر عبادات بھی مسترد ہو جائیں گی۔

یہاں قرآن مجید نے لفظ اقامہ استعمال کیا ہے۔ یعنی مؤمنین و متقین نماز ’’ قائم ‘‘ کرتے ہیں۔ یہ نہیں فرمایا :نماز ’’ادا ‘‘ کرتے ہیں۔

لفظ اقامہ اجتماعی ذمہ داریوں کے لیے استعمال ہوا ہے:

اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ ؕ ۔۔۔ {۴۲ شوریٰ: ۱۳}

اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا۔

وَ اَقِیۡمُوا الۡوَزۡنَ بِالۡقِسۡطِ وَ لَا تُخۡسِرُوا الۡمِیۡزَانَ﴿﴾ ۔ {۵۵ رحمن: ۹}

اور انصاف کے ساتھ وزن کو درست رکھو اور تول میں کمی نہ کرو۔

لہٰذا اقامۃ الصلوٰۃ انفرادی سے زیادہ اجتماعی فریضہ ہے اور مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ ایک نمازی معاشرہ قائم کریں، جو فحشاء اور منکر سے پاک ہو۔ چنانچہ ایک اور آیت میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ حکومت اسلا می کے قیام کا ایک اہم مقصد اقامۂ صلوٰۃ ہے:

اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ ۔۔۔۔ {۲۲ حج : ۴۱}

یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دیں تو وہ نماز قائم کریں گے۔۔۔۔

ظاہر ہے کہ انفرادی نماز کا قیام اقتدار کے بغیر بھی ہو سکتا ہے نیز مذکورہ آیت باجماعت نماز پڑھنے کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے۔

وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ: مومن، عابد اور متقی انسان اجتماعی زندگی اوراقتصادی جدوجہدسے الگ تھلگ نہیں رہ سکتا۔ دشمنان اسلام کے نظریات کے برعکس، مذہب افیون نہیں بلکہ مذہبی انسان معاشرے کا فعال رکن ہوتا ہے۔

انفاق و فیاضی ایک کائناتی نظام ہے۔ سورج اپنی شعاعوں سے، ہوا اپنی لطافت سے اور پانی اپنی تازگی سے جو فیاضی کرتا ہے، اسی سے کائنات میں زندگی اور شادابی کا دور دورہ ہے۔ متقی میں اس فیاضی کی موجودگی ضروری ہے تاکہ معاشرہ اس کے مادی رزق کی طرح معنوی رزق سے بھی فیضیاب ہوتا رہے۔ چنانچہ علم، ایک معنوی رزق ہے، لہٰذا اس کی زکوٰۃ تعلیم و تدریس ہے۔ اس آیت کے ذیل میں امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے:

مِمَّا عَلَّمْنَاھُمْ یَبُثُّوْنَ ۔ {بحار الانوار ۲ : ۱۶}

ہم نے انہیں جو تعلیم دی ہے، وہ اس کی اشاعت کرتے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ اہل تقویٰ محسوس پرست نہیں ہوتے: يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ ۔

۲۔ غیب پر ایمان نمازاور انفاق پر عمل کے ساتھ مربوط ہے۔

۳۔ نماز اور انفاق ایمان کا لا زمہ ہیں۔

۴۔ اہل تقویٰ انفرادی اور اجتماعی سطح پر ایک نمازی معاشرے کے قیام کی کوشش کر تے ہیں۔

۵۔ انفاق ایک کائناتی عمل ہے، جس سے ایک مومن انسان لا تعلق نہیں رہ سکتا۔

۶۔ تمام عبادات کا اصل محور نماز ہے۔

۷۔ ایمان کے اجزائے تر کیبی میں سے ایک، عمل ہے۔

تحقیق مزید: الوسائل ۲۱ : ۵۲۷۔ مستدرک الوسائل ۳ : ۸۴


آیت 3