تفسیر قرآن سورہ ‎البقرۃ آیات 3 - 4

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَیۡبِ وَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ۙ﴿۳﴾
متقین کے اوصاف بیان ہو رہے تھے ان میں سے ایک ایمان بالغیب اور دوسری صفت اقامہ نماز اور تیسری صفت ہےوَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ نماز کے بارے میں ائمہ اہلبیت عليهم‌السلام کی طرف سے رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث تواتر سے ہیں کہ نماز دین کا ستون ہے اور معراج مومن ہے۔ اللہ تعالیٰ کمال مطلق اور اس کمال کے سامنے جھکنا خود اپنی جگہ کمال ہے۔ لہذا نماز مومن کے لئے معراج ہے، نماز دین کا ستون ہے۔ فَاِنْ قُبِلَتْ قُبِلَ مَا سِوَیٰھٰا وَ اِنْ رُدَّتْ رُدّٰ مَا سِوَیٰھَا اگر نماز قبول ہے تو باقی اعمال قبول اور اگر نماز قبول نہیں ہے تو باقی اعمال قبول نہیں۔ اس کے بعد متقین کے اوصاف وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ جو کچھ ہم نے ان کو عنایت کیا ہے اس کو خرچ کرتے ہیں رزق عنایت کرنا ۔مطلق جو اللہ کی طرف سے عنایات ہیں ان سب کو رزق کہتے ہیں، کھانے پینے کی چیزوں کے ساتھ زرق مختص نہیں ہے۔رزقت ولدا کہتے ہیں۔ مجھے بیٹا عنایت ہو گیا یُنۡفِقُوۡنَ خرچ کرنا۔نفق خرچ کرنے کو کہتے ہیں۔ اصل میں نفق سرنگ کو کہتے ہیں ادھر سے داخل ہوا دوسری طرف سے نکل گیا۔ انفاق ادھر سے اللہ کی طرف سے وصول کیا اور دوسری طرف سے خرچ کیا، نکال دیا، اس کو انفاق کہتے ہیں۔ نفاق بھی اسی سے ہے کہ اس کان سے سنا اور دوسرے کان سے نکال دیا اس کو منافق کہتے ہیں۔
رزق مطلق عنایت کو کہتے ہیں اور انفاق مطلق اس عنایت الہی کو آگے نکالنے کو کہتے ہیں۔ لہذا اس میں صرف مال کا رزق یا مال کا خرچ اس میں نہیں ہے، مخصوص نہیں ہے بلکہ روایت میں آیا ہے کہ مِمَّا عَلَّمْنَاھُمْ یَبُثُّوْنَ ۔ بحار الانوار ۲ : ۱۶ جو کچھ ہم تعلیم دیتے ہیں ان کو آگے پھیلاتے ہیں، یہ بھی اس کے مصداق کے تحت آتا ہے۔ اس میں مومن کے سلسلے میں یہ صفت بھی ہے کہ مومن ایک معاشرے کا ایک فعال رکن ہوتا ہے وہ ینفقون کا عمل جب انجام دیتا ہے تو انفاق نہیں ہو سکتا جب تک کسب نہ کرے۔ مومن معاشرے کا فعال رکن ہوتا ہے، مومن پیداواری عمل انجام دیتا ہے اور پھر آگے انفاق کرتا ہے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ مومن کے اوصاف میں سے رُهبانٌ بِالَّليلِ اُسْدٌ بِالنَّهارِ رات کے عابد اور دن کے شیر ہوتے ہیں۔ لہذا مومن اس کو نہیں کہتے ہے جو بیکار ہے اور دوسروں کے مال کا محتاج رہے۔ مومن کے اوصاف یہ ہے کہ وہ انفاق کرتے ہیں آگے۔
وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِکَ ۚ وَ بِالۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ یُوۡقِنُوۡنَ ؕ﴿۴﴾ ان کے اوصاف میں سے ایک صفت یہ ہے یُؤۡمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ اے حبیب جو کچھ آپ کی طرف اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے اس پر ایمان لے آتے ہیں مَاۤ اُنۡزِلَ پر ایمان لے آتے ہیں۔ رسالت مآب کے اوپر جو نازل ہوا ہے اس میں سے ایک حصہ جو بطور معجزہ نازل ہوا اس کو قرآن کہتے ہیں اور بطور معجزہ نازل نہیں ہوا اس کو سنت کہتے ہیں۔ قرآن اور سنت دونوں مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ میں شامل ہے۔ مومنین کے اوصاف میں سے ایک اہم صفت یہ ہے کہ وہ تمام مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ اعم یہ کہ وہ قرآن ہو یا سنت ہو۔ رسالت مآب کوئی بھی بات ارشاد فرماتا ہے وَ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی ؕ﴿۳﴾ اِنۡ ہُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی رسول کا نطق رسول کی ہر بات سنت ہے مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ کے تحت ہے وَحۡیٌ یُّوۡحٰی ۙ کا حصہ ہوتا ہے۔ لہذا تمام مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ پر ایمان لے آنا یہ متقین کی صفات میں سے ایک صفت ہے۔ مثلاً مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ کے سلسلے میں یہ ہے کہ رسول اللہ کے احادیث میں سے وہ احادیث جو کسی کے حق میں ہو قبول کیا جائے اور جو احادیث کسی کے حق میں نہیں ہے اس کو قبول نہ کیا جائے، یہ مومن نہیں ہے وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ پر ایمان نہیں رکھتا پورا۔ تمام مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ پر ایمان رکھا جائے۔
یہاں ایک اور بات بھی ہے، کہ ہمارے احادیث میں ہے بہت سے احادیث میں ہے کہ قرآن کے بعض آیات کے بارے میں کہا ہے احادیث میں هكذا نزلت۔ هكذا نزلت سے اشتباہ ہوتا ہے کہ یہ جو بھی نازل ہوا ہے رسالت مآب کے اوپر وہ سب کے سب قرآن ہے اور لہذا یہ قرآن میں نہیں ہے تو تحریف لازم آتا ہے ایسا ہرگز نہیں ہے هكذا نزلت سے قرآن ثابت نہیں ہوتا هكذا نزلت سے ثابت ہوتا ہے کہ نازل اسی طرح ہوا ہے لیکن جو کچھ نازل ہوا ہے وہ سب قرآن نہیں ہے البتہ جتنا قرآن ہے وہ سب کچھ مَاۤ اُنۡزِلَ میں آتا ہے اور جو کچھ مَاۤ اُنۡزِلَ ہے وہ سارا قرآن نہیں ہے۔ لہذا ہو سکتا ہے کہ ایک آیت کے بارے میں هكذا نزلت ہو لیکن اس کا ایک حصہ آیت ہو اور ایک حصہ تشریع اور سنت کا حصہ ہو۔ لہذا ہم اس مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ کی تفسیر میں یا وہ روایات تحریفی جس میں یہ بات ہے کہ هكذا نزلت سے استدلال کرتے ہیں کچھ لوگ کہ قرآن میں تحریف ہوا ہے وہ رد کرتے ہیں کل ما انزل الیک قرآن نہیں ہے۔
وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِکَ جو آپ سے پہلے نازل ہوا ہے ان کے اوپر بھی ایمان رکھتے ہیں، یعنی سابقہ شریعتوں کے اوپر بھی ہم ایمان رکھتے ہیں اور ہمارے ایمان کا حصہ ہے تمام شرائع سابقہ کے اوپر ایمان رکھنا کہ وہ اگرچہ اس وقت منسوخ ہے لیکن اپنے زمانے میں وہ تمام شریعت جو آسمانی کتابوں سے تشکیل پائیں ہیں، وہ سب مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِکَ میں شامل ہے۔ حضرت موسی کی شریعت، حضرت عیسی کی شریعت ان سب کو ہم تسلیم کرتے ہیں کہ یہ من اللہ ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اگرچہ ہم پیروی اپنی شریعت محمدی کی کرتے ہیں۔ وہ شریعتیں منسوخ ہیں اپنی جگہ۔ منسوخ ہونا اور بات ہے لیکن اس کا اللہ کی طرف سے ہونے کا اقرار کرنا دوسری بات۔
وَ بِالۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ یُوۡقِنُوۡنَ ؕ﴿۴﴾ مومن کے اوصاف میں سے، متقین کے اوصاف میں سے ایک صفت یہ ہے کہ وہ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہاں پر مومن کا ایک تصور کائنات اور ایک زندگی کے بارے میں تصور سامنے آتا ہے، وہ آخرت کے اوپر ایمان ہے۔ آخرت کا ایمان انسان کے لئے تقدیر ساز، سرنوشت ساز، انسان کے کردار کے اوپر بہت بڑا اثر ہے ایمان بالآخرۃ کا۔
مومن کا تصور کائنات، تصور زندگی یہ ہے کہ مومن کہاں سے آیا؟ کس لئے آیا؟ کہاں جانا ہے؟ اس کا جواب رکھتا ہے۔ جبکہ ایمان بالآخرۃ نہ رکھنے والے مادی انسان سے سوال کیا جائے کہ تو کہاں سے آیا؟ کس لئے آیا اور تو نے کہاں جانا ہے؟ مادی انسان کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے۔ ایک ملحد شاعر اس زندگی کو دریا کے ساتھ تشبیہ دیتا ہے اور کہتا ہے: تو کہاں سے آیا اور تو نے کہاں جانا ہے اور تیرے اندر موجود یہ تلاطم یہ کیا چیز ہے؟ ضحكت أمواجه مني وقالت: لست أدري وہ اپنے شاعرانہ انداز میں کہتا ہے کہ موجوں نے تبسم کیا اور کہا کچھ نہیں جانتے کہاں سے آئے ہے کہاں جاتا ہے اور ہمارے موجوں میں تلاطم ہے، زندگی میں اونچ نیچ، نشیب و فراز ہے دکھ درد ہے یہ کیوں ہے؟ ہم کچھ نہیں جانتے۔ مادی انسان اپنی زندگی کے بارے میں کچھ نہیں جانتا ہے۔ جتنے بھی سوالات اس کی زندگی کے سلسلے میں اٹھائے جاتے ہیں ان میں سے کسی ایک کا بھی جواب مادی انسان کے پاس نہیں ہے۔ مادی انسان نیچر کے ہاتھوں ایک کھلونا ہے جو اسے دکھ دیتا ہے، درد دیتا ہے بلا وجہ اذیت دیتا ہے اور دکھ درد اذیت سہ سہ کر مر جاتا ہے، کیڑے کی طرح، بے مقصد اور ختم ہو جاتا ہے۔ مادی انسان بے مقصد انسان ہے، بے ہدف انسان ہے۔
جبکہ الہی انسان اور خدا کا قائل انسان اس سے جب پوچھا جاتا ہے کہ تو کہاں سے آیا؟ تو نے کہاں جانا ہے؟ یہاں کس لئے ہے؟ تمام سوالات کا جواب رکھتا ہے۔ ایک ہم جملہ کہتے ہیں جب ہم ایک سفر طے کرتے ہیں إِنَّا لِلَّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ہم وہاں سے آئے ہیں اللہ کی طرف سے، اللہ کے لئے تھے ہم اور اسی کی طرف جانا ہے۔ اس ارتقائی سفر میں ہماری زندگی کے لئے انتقال زندگی از زندگی ہے لیکن ختم نہیں ہے فنا نہیں ہے۔
حضرت علی عليه‌السلام کا فرمان ہے اِنّمٰا خُلِقْتُمْ لِلْبَقَائِ لَا لِلْفَنَاء تم ہمیشہ رہنے کے لئے پیدا کئے گئے ہو فنا نابودی کے لئے نہیں۔ اور قرآن مجید خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا جنت کے بارے میں اور جہنمیوں کے لئے جہنم کے بارے میں خلود کا ذکر کرتا ہے ہمیشہ۔ خلود ہے، ہمیشہ۔ دائمی زندگی البتہ اس زندگی میں فنا نہیں ہے، انتقال ہے۔ ہم زمین سے پیدا ہوئے، ہمارے مادی وجود جو ہے تمام عناصر زمینی عناصر ہیں، ہم میں پائے جاتے ہیں۔ یہ تمام عناصر جب ہم زمین کا حصہ تھے اس وقت ہماری زندگی کا رہن سہن کا طریقہ مختلف تھا، قانون زندگی مختلف تھا، زندگی کے شرائط و لوازم و اسباب مختلف تھا، خاک اور زمین پر زندہ رہنے کے لئے، جب وہاں سے منتقل ہو گئے عالم نباتات میں آ گئے ایک انتقال، تو قانون زندگی بدل گیا، شرائط زندگی، لوازم زندگی بدل گیا اور اسباب زندگی بدل جاتا ہے اور نبات کے زندہ رہنے کے لئے بہت کچھ چاہئے۔ کل خاک کی زندگی کے ساتھ مقائسہ نہیں ہو سکتا، اب اس کا عالم بدل گیا، عالم بدلنے سے طریقہ زندگی بدل گیا۔ نبات اور عالم نبات سے پھر منتقل ہو کر ہم عالم حیوانات میں آتے ہیں، عالم جرثومہ ہے تو اس میں آتے ہیں تو یہاں رہن سہن کی زندگی بدل جاتی ہے۔ زندگی کا رہن سہن بدل جاتا ہے اور قانون زندگی بھی بدل جاتا ہے اسباب اور شرائط زندگی تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اب یہ جرثومہ جب صلب پدر میں آتا ہے، تو وہ نباتات کی شرائط میں نباتات کے قانون کے تحت زندگی کرنا اس کے لئے ممکن نہیں ہے ان کے اپنے عالم اور اپنے قانون زندگی ہے۔ جب یہاں سے منتقل ہو کر کے رحم مادر میں آ جاتا ہے تو رحم مادر بھی ایک عالم دیگر اور یہاں آنے سے اس کے زندگی کے لوازم بدل گئے قانون بدل گیا۔ اسی طرح جب رحم مادر سے اس زمین پر آتے ہیں، اس زندگی میں آتے ہیں ہم۔ یہاں آتے ہی طریقہ زندگی فوراً بدل جاتا ہے، یہاں سے جب ہم منتقل ہوتے ہیں عالم برزخ میں جائے ہیں تو وہاں بھی رہن سہن کا طریقہ بدل جاتا ہے، زندگی کا قانون بدل جاتا ہے وہاں کی ضرورتیں اور ہوتی ہیں۔ قابل مقائسہ نہیں ہے موازنہ نہیں ہے برزخ کی زندگی اور دنیا کی زندگی میں اور اسی طرح عالم آخرت کی زندگی اور عالم برزخ کی زندگی مختلف ہے۔ عالم آخرت میں حساب کتاب کی زندگی ہے، ثواب و جزاء کی زندگی ہے وہاں زندگی کے قانون اور رہن سہن کے طور و طریقے مختلف ہوتے ہیں۔
قیامت کے دن، ہم نے چونکہ اللہ تعالیٰ کے سامنے حساب دینا ہے، خود اللہ تعالیٰ کو حساب دینا ہے۔ اس کے اوپر یقین کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے، خود اللہ تعالیٰ ہم سے بات کرے گا۔ اور کافروں کے بارے میں ہے لَا یُکَلِّمُہُمُ اللّٰہُ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان سے بات نہیں کرے گا، یعنی حساب کتاب نہیں لیا جائے گا، براہ راست جہنم بھیج دیا جائے گا۔ کچھ لوگ براہ راست جہنم جاتے ہیں اور کچھ لوگ براہ راست بلا حساب و کتاب جنت جاتے ہیں اور باقی حساب و کتاب کے ساتھ ان کا فیصلہ ہوتا ہے وہاں خود خداوند عالم حساب لیتا ہے۔ لہذا اسے اللہ تعالیٰ یوم لقاء بھی کہتے ہیں، اللہ سے ملاقات، اللہ کی بارگاہ میں جانا، خود اللہ کی بارگاہ میں حاضری دینا ہے۔ اس یوم کے اوپر، آخرت کے اوپر یقین انسان کے اعمال کے لئے بہت ہی موثر کردار ادا کرتا ہے۔ اگر کسی کو یوم آخرت کے اوپر یقین ہو تو حضرت خلیل، حضرت خلیل ابو الانبیاء ہونے کے باوجود فرماتے ہیں لا تخزنی یوم القاک جس دن میں تیری ملاقات کروں گا مجھے رسوا نہ کر۔ خلیل فرماتے ہیں مجھے رسوا نہ کر۔ اس کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ رسوا نہ کر یعنی اولوالعزم نبی کے لئے رسوائی کا کیا احتمال ہے؟ ایک دعا ہے امام زین العابدین عليه‌السلام کی صحیفہ سجادیہ میں اس میں ارشاد فرمایا ہے پھر یہی جملہ استعمال فرمایا ہے: مجھے رسوا نہ کر بین اولیائک اپنے اولیاء کے درمیان میں رسوا نہ کر یعنی ائمہ اور انبیاء عليهم‌السلام کی رسوائی یہ ہے کہ انبیاء عليهم‌السلام کے صفوں میں کہیں درجے میں کمی نہ آئے اس کو وہ رسوائی سمجھتے ہیں۔ یعنی اس قیامت کے دن محشر میں تمام خلائق کے سامنے جب انسان آتا ہے تو اس وقت انسان کے لئے رسوائی بہت بڑی چیز ہے یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْهِۙ۳۴وَ اُمِّهٖ وَ اَبِیْهِۙ اپنے باپ سے اپنی ماں سے اپنے بھائی سے بھاگ جائیں گے کہ کہیں کسی حق نہ مطالبہ نہ ہو، اس وقت ایک، البتہ مومن کے لئے ایک آیت ہے قرآن مجید وَّ یَنۡقَلِبُ اِلٰۤی اَہۡلِہٖ مَسۡرُوۡرًا وہ اپنے خاندان کے افراد کے پاس خوشی خوشی واپس جاتا ہے۔ ہم کو دعا کرنی چاہئے اللھم اجلنی ممن ینقلب الی اھلہ مسرورا خداوندا مجھے ان لوگوں میں سے قرار دے جو اپنے خاندان کی طرف خوشی خوشی واپس جاتے ہیں۔