آیت 4
 

وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِکَ ۚ وَ بِالۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ یُوۡقِنُوۡنَ ؕ﴿۴﴾

۴۔ اور جو کچھ آپ پر نازل کیا گیا نیز جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا ہے، ان پر ایمان اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔

تشریح کلمات

اُنْزِلَ:

( ن ز ل ) نزول یعنی بلند جگہ سے نیچے اترنا۔ خواہ یہ بلندی محسوسات میں سے ہو جیسے :

وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً طَہُوْرً ۔۔۔ {۲۵ فرقان : ۴۸}

اور ہم نے آسمان سے پاک کرنے والا پانی برسایا ہے۔

یا معنوی بلندی ہو، جیسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے ہر حکم کو ’’نازل شدہ حکم‘‘ کہا جاتا ہے:

وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ ۔ {۵۷ حدید : ۲۵}

اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا ہے۔

اکثر اوقات نزول سے عطاو عنایت مراد لی جاتی ہے خواہ یہ عنایت براہ راست ہو جیسے نزول قرآن یا بذریعہ اسباب جیسے:

قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُّوَارِيْ سَوْاٰتِكُمْ ۔ {۷ اعراف: ۲۶}

ہم نے تمہارے لیے لباس نازل کیا جو تمہارے شرم کے مقامات کو چھپائے۔۔۔۔

یعنی تمہیں عقل و حواس عطا کیے، جن کے ذریعے تم سترپوشی کا سامان مہیا کرتے ہو۔ یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی ہر وحی، قرآن نہیں ہوتی۔کچھ ایسے احکام بھی نازل ہوئے ہیں،جو قرآن کاحصہ نہیں ہیں،جنہیں سنت کہا جاتا ہے۔ تفسیر قرآن کے ضمن میں آئمہ اہل بیت علیہم السلام سے مروی بعض روایات میں ھَکَذا أُنْزِلَتْ کے الفا ظ ملتے ہیں جن سے یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ أُنْزِلَت سے مراد نزول قرآن ہے، جو درست نہیں، بلکہ مراد یہ ہے کہ اس طرح نازل ہوئی ہے، مگر قرآن کا حصہ نہیں ہے، تاکہ تحریف قرآن کا شائبہ نہ رہے۔

آخرۃ:

( ا خ ر ) آخر اول کی ضد ہے۔ الدار الآخرۃ سے نشأۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے اور کبھی الدار حذف کر کے صرف الآخرۃ استعمال ہوتا ہے جیسے: وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ يُوْقِنُوْنَ ۔

تفسیر آیات

وَالَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ: صاحبان تقویٰ کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ رسول (ص) کے لائے ہوئے ہر حکم اور ہر پیغام پر ایمان رکھتے ہیں۔ ایسا نہیں کرتے کہ اپنے مطلب کی باتوں پر تو ایمان لے آئیں، مگراپنے مفادات سے متصادم باتوں کو درخور اعتنا ہی نہ سمجھیں۔ ایسے کردار کے حامل افراد کے بارے میں ارشاد خدا وندی ہے:

اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَتَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ ۔۔۔ {بقرہ ۲: ۸۵}

کیا تم کتاب کے کچھ حصے پر ایمان لاتے ہو اور کچھ حصے سے کفر اختیار کرتے ہو؟

وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ يُوْقِنُوْنَ: یقین ایمان کے بعد آتا ہے۔ یعنی ایمان کی پختگی کانام یقین ہے۔ یقین کا اعلیٰ ترین مرتبہ و مقام عصمت ہے۔ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام سے روایت ہے:

لَوْ کُشِفَ الْغَطَائُ مَا ازْدَدْتُ یَقِیْنًا ۔ {شرح نہج البلاغۃ ابن ابی الحدید ج ۷ باب ۱۱۳ ص ۲۵۳۔}

اگر پردہ ہٹا بھی دیا جائے تو میرے یقین میں اضافہ نہ ہو گا۔

آخرت پر یقین سے انسان میں بقاء کا تصور قائم ہوتا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:

اِنّمٰا خُلِقْتُمْ لِلْبَقَائِ لَا لِلْفَنَاء ۔ {غرر الحکم و دررالکلم ص ۱۳۳}

تم بقا کے لیے پیدا کیے گئے ہو، فنا کے لیے نہیں۔

تصور بقا سے ہی زندگی بامقصد اور بامعنی بنتی ہے۔ تصور معاد کے بغیر انسان ایک بے مقصد وجود اور لایعنی و فالتو چیز قرار پاتا ہے جس کا انجام بلاوجہ دکھ درد سہتے ہوئے نیست و نابود ہونا ہے۔ وہ طبیعت کے ہاتھوں ایک کھلونا ہے، جب کہ اسے طبیعت سے بہلنے کے لیے نہیں، بلکہ ایک عظیم مقصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ اس مقصد اور مقام تک رسائی، تصور معاد کے بغیر ناممکن ہے۔ اسی اہمیت کے پیش نظر قرآنی تعلیمات کا ایک تہائی حصہ اخروی زندگی سے متعلق ہے۔

تصور معاد سے انسان ایک بامقصدوجود بن جاتا ہے،جو اپنے ہر عمل کا ذمے دار اور حیات ابدی کا مالک قرار پاتا ہے۔ تصور آخرت کے بعدو ہ تقویٰ کی اعلیٰ ترین منازل پر فائز ہو کر کمال حاصل کرتا ہے۔ اس کی دنیاوی زندگی کو قیمت ووقعت مل جاتی ہے۔ اس زندگی میں اس کا ایک مختصر سا عمل اس کی اخروی زندگی کو آباد و شاد کر دیتا ہے۔

بر گردد آنکہ باہوس کشور آمدہ

یزدان ذوالجلال بخلوت سرائے قدس

کاین عرصہ نیست درخور فرھمائے ما

آراستہ است بزم ضیافت برای ما

اہم نکات

۱۔ تمام ادیان سماوی باہم مربوط ہیں، لہٰذا ایمان سب پر ہونا چاہیے۔

۲۔ آخرت پر یقین سے انسان میں بقا و دوام کا تصور قائم ہو جاتا ہے۔

۳۔ حیات ابدی کا تصور انسان کو ذمہ دار اور اس کی زندگی کو بامقصد بناتا ہے۔


آیت 4