آیت 164
 

قُلۡ اَغَیۡرَ اللّٰہِ اَبۡغِیۡ رَبًّا وَّ ہُوَ رَبُّ کُلِّ شَیۡءٍ ؕ وَ لَا تَکۡسِبُ کُلُّ نَفۡسٍ اِلَّا عَلَیۡہَا ۚ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰی ۚ ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمۡ مَّرۡجِعُکُمۡ فَیُنَبِّئُکُمۡ بِمَا کُنۡتُمۡ فِیۡہِ تَخۡتَلِفُوۡنَ﴿۱۶۴﴾

۱۶۴۔کہدیجئے:کیا میں کسی غیر اللہ کو اپنا رب بناؤں؟ حالانکہ اللہ ہر چیز کا رب ہے اور ہر شخص اپنے کیے کا خود ذمے دار ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا پھر تم سب کو اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے پھر (وہاں) وہ تمہیں بتائے گا جس چیز کے بارے میں تم لوگ اختلاف کیا کرتے تھے۔

تفسیر آیات

۱۔ توحید پر ایک واضح دلیل یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ہر چیز کا رب ہے تو غیر اللہ کو رب بنانے کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی، کیونکہ ہر چیز کا وجود، بقا اور ارتقا اللہ کی طرف سے ہے۔ غیر اللہ کی طرف سے نہ وجود ہے، نہ بقا و ارتقا نیز کُلِّ شَیۡءٍ میں مشرکوں کے سارے معبود آجاتے ہیں۔ لہٰذا جب سورج، ستارے، اصنام اور حضرت مسیح (ع) سب میری طرح اللہ کی مخلوق اورمربوب ہیں تو ان کو رب کیسے بنا سکتا ہوں۔

۲۔ توحید اور عدل الٰہی کا ایک اہم اصول یہ ہے کہ ہر شخص اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے۔ نہ اس پر کسی اور کے عمل کا بوجھ آئے گا، نہ اس کے عمل کا بوجھ کوئی اور اٹھائے گا:

اَمۡ لَمۡ یُنَبَّاۡ بِمَا فِیۡ صُحُفِ مُوۡسٰی وَ اِبۡرٰہِیۡمَ الَّذِیۡ وَفّٰۤی اَلَّا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰی وَ اَنۡ لَّیۡسَ لِلۡاِنۡسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی (۵۳ نجم: ۳۶ تا ۳۹)

کیا اسے ان باتوں کی خبر نہیں پہنچی جو موسیٰ کے صحیفوں میں تھیں؟ اور ابراہیم کے (صحیفوں میں) جس نے (حق اطاعت) پورا کیا؟ یہ کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور یہ کہ انسان کو صرف وہی ملتا ہے جس کی وہ سعی کرتا ہے۔

اس عادلانہ کلیے سے صنم پرستوں اور مشرکوں کے عقائد و نظریات کی بیخ کنی ہو گئی۔ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ بتوں کی وجہ سے وہ اپنے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھائیں گے اور بغیر عمل و کوشش کے قرب الٰہی کے مستحق

بنیں گے۔

اس کلیہ میں درج ذیل امور داخل نہیں ہیں:

i۔ جو شخص ایک اچھی سنت رائج کرتا ہے، اس کو اس کا ثواب اور اس پر عمل کرنے والوں کا بھی ثواب ملے گا اور جو شخص ایک بری سنت رائج کرتا ہے تو اسے اس کا گناہ اور اس پر عمل کرنے والوں کا بھی گناہ اٹھانا ہو گا۔ (حدیث نبوی)

ii۔ انسان جب مر جاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے، سوائے تین چیزوں کے: صدقہ جاریہ، وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے اور اولاد صالح جو اس کے لیے دعا کرے۔ (حدیث نبوی)

iii۔ مرنے والے کی نماز و روزہ کی قضا بیٹے کی طرف سے بجا لائی جائے۔

iv۔ دعائے مؤمن برائے استغفار مومن۔

چنانچہ پہلی اور دوسری صورت عمل کنندہ کے آثار ہیں، جن کا سبب وہ خود ہے۔ اس لیے وہ بھی ثواب کا مستحق بن جاتا ہے۔ تیسری اور چوتھی صورت میں انسان اپنے اختیار سے دوسرے کو اپنے اعمال کے نتائج و ثمر کو ہدیہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو یہ عمل منظور ہے، بشرطیکہ ہدیہ وصول کرنے والا خود کو اپنے اعمال سے اس لائق بنائے کہ کسی کا ہدیہ اس کے لیے مفید ہو۔ مثلا جسم کا نظام اس قابل ہو کہ دوائی اس کے لیے مفید ہو اور وہ روایت اس آیت سے متصادم ہے جو کہتی ہے کہ رونے سے میت کو عذاب ملتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ ہر شخص کو خود اپنے عمل پر تکیہ کرنا چاہیے: وَ لَا تَکۡسِبُ کُلُّ نَفۡسٍ اِلَّا عَلَیۡہَا ۔۔۔۔

۲۔ دوسروں کے گناہ کا بوجھ آپ پر نہیں گرے گا تو دوسروں کے عمل خیر سے بھی آپ کو کچھ نہیں ملے گا، سوائے مقررہ موارد کے۔


آیت 164