آیات 162 - 163
 

قُلۡ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۱۶۲﴾ۙ

۱۶۲۔ کہدیجئے: میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا سب یقینا اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔

لَا شَرِیۡکَ لَہٗ ۚ وَ بِذٰلِکَ اُمِرۡتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ﴿۱۶۳﴾

۱۶۳۔ جس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا فرمانبردار ہوں۔

تفسیر آیات

توحید خالص یہ ہے کہ تمام امور خواہ تشریعی ہوں، جیسے نماز و دیگر عبادات، خواہ تکوینی ہوں، جیسے زندگی اور موت، سب کا تعلق رب العالمین سے ہے۔ عبادت ہو تو صرف اسی ذات کے لیے ہو۔ زندگی یا موت کا مسئلہ درپیش ہو تو راضی برضا اور تسلیم بامر خدا ہو۔ عبادت، موت و حیات کے کسی مسئلے میں غیر اللہ کی طرف رجوع کا شائبہ تک نہ ہو۔ دین ابراہیمی کا اصل الاصول یہی ہے کہ آتش نمرود کے شعلوں کی لپیٹ میں جاتے ہوئے جبرئیل امین جیسے عظیم القدر فرشتے کو بھی اعتنا میں نہ لائے اور صرف اور صرف اپنے رب سے لو لگائے۔

اَنَا اَوَّلُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ: اول سے مراد از لحاظ زمانہ بھی ہو سکتا ہے کیونکہ خود رسول خداؐ سے مروی ہے:

اول ما خلق اللہ نوری ۔ (عوالی الآلی ۴ : ۹۹۔ بحار الانور ۲۵: ۲۲، باب ۱۔ المواقف ۲: ۶۸۶، المقصد الاول، السیرۃ الحلبیۃ ۱: ۲۴۰۔ تفسیر النیسابوری ۳: ۳۸۴۔ مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح ۱: ۳۸۷، باب الایمان بالقدر)

اللہ نے جو سب سے پہلے خلق کیا ہے، وہ میرا نور ہے۔

اور از لحاظ درجہ تو یقینا رسول اسلامؐ اول درجہ پر فائز ہیں۔ اسی لیے قرآن نے باقی انبیاء (ع) کے بارے میں من المسلمین کی تعبیر اختیار فرمائی ہے اور صرف رسول اسلامؐ کے لیے اول المسلمین کہا ہے۔

اہم نکات

۱۔انسان کا جینا اللہ کے لیے ہوتا ہے تو اس کا ہر عمل کھانا، سونا اور کسب و کمائی کرنا، سب عبادت

ہو جاتا ہے۔ مرنا اللہ کے لیے ہوتا ہے تو انسان دیدار رب کا مشتاق ہوتا ہے۔ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ ۔۔۔۔


آیات 162 - 163