آیات 1 - 2
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ العصر

وَ الۡعَصۡرِ کا لفظ شروع میں مذکور ہونے کے لحاظ سے اس سورہ کا نام الۡعَصۡرِ مقرر ہوا۔

یہ سورۃ مبارکہ مکی ہے اور یہ قرآن کی مختصر ترین سورتوں ( الکوثر۔ قل ھو اللہ ۔ العصر ) میں سے ایک ہے۔

یہ سورۃ مبارکہ نہایت مختصر ہونے کے ساتھ نہایت جامع انداز میں زندگی کی ناپائیداری، انسان کے مقصد حیات اور اسلامی تعلیمات کے بارے میں ایک جامع ترین تعبیر پر مشتمل ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَ الۡعَصۡرِ ۙ﴿۱﴾

۱۔ قسم ہے زمانے کی۔

اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ ۙ﴿۲﴾

۲۔ انسان یقینا خسارے میں ہے ۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ الۡعَصۡرِ: الۡعَصۡرِ سے مراد زمانہ ہے چونکہ زمانے اور آگے والے مضمون میں ربط ہے۔ وہ ہے انسان خسارے میں ہے۔ چنانچہ انسان زمانے کے ہاتھوں خسارہ اٹھا رہا ہوتا ہے۔

اس کی تشریح کچھ اس طرح ہے کہ انسان زمانی ہے اور زمانے کی زد میں ہے۔ زمانہ انسان سے ہر لمحے اس کی زندگی کا ایک حصہ ختم کر رہا ہوتا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:

نَفَسُ الْمَرْئِ خُطَاہُ اِلَی اَجَلَہِ۔ (نہج البلاغۃ حکمت: ۷۴)

انسان کی ہر سانس ایک قدم ہے جو اسے موت کی طرف بڑھائے لیے جا رہا ہے۔

ہر سانس میں انسان اپنی زندگی کا ایک حصہ اپنے ہاتھ سے دے رہا ہوتا ہے۔

کائنات میں ہر انسان کے لیے سب سے اہم چیز خود اس کی زندگی ہے۔ اگر خدا، رسول اور امام اہم ہیں تو اس لیے کہ وہ اس کا خدا، رسول اور امام ہیں۔ یعنی ان میں اس کی اپنی خودی شامل ہے۔یہ زندگی ہر آن اس کے ہاتھ سے نکلتی جا رہی ہے۔ جو اس دنیا میں اسے سب زیادہ عزیز ہے اسے ہاتھ سے دے رہا ہے اور زندگی دے کر اس کی کوئی تلافی نہیں ہو رہی۔

۲۔ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ: یہ انسان ہر آن خسارے میں ہے۔


آیات 1 - 2