آیت 3
 

اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّ ۬ۙ وَ تَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ ٪﴿۳﴾

۳۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اور جو ایک دوسرے کو حق کی تلقین کرتے ہیں اور صبر کی تلقین کرتے ہیں۔

تفسیر آیات

البتہ اس خسارے سے وہ لوگ محفوظ ہیں جن میں درج ذیل چار صفات موجود ہوں:

۱۔ اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا: پہلی صفت ایمان ہے۔ مومن اپنی زندگی بغیر کسی تلافی کے ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ اس تلافی کا پہلا قدم ایمان ہے۔

۲۔ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ: دوسری صفت ایمان کے بعد عمل صالح ہے چونکہ ایمان ایک جامد فکر و عقیدے کا نام نہیں ہے۔ ایمان کے اثرات ہوتے ہیں اور وہ اعمال صالحہ ہیں۔ اس نام نہاد ایمان کی کوئی قیمت نہیں جس کا کردار پر کوئی اثر نہ ہو۔

مومن ایمان و عمل صالح کے ذریعے اپنی زندگی کی، جو اس کے ہاتھ جا رہی ہے، تلافی کرتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ زندگی اس کائنات میں سب سے قیمتی چیز ہے، مومن کس چیز سے اس کی تلافی کرتا ہے جو زندگی کی قیمت کے برابر ہو۔ جواب یہ ہے کہ مومن دنیا کی زندگی دے کر آخرت کی زندگی لیتا ہے۔ زندگی سے کم کسی اور چیز سے اس خسارے کی تلافی نہیں ہوتی۔ یعنی زندگی کی قیمت میں زندگی حاصل کی جائے تو خسارہ نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

مَنۡ عَمِلَ صَالِحًا مِّنۡ ذَکَرٍ اَوۡ اُنۡثٰی وَ ہُوَ مُؤۡمِنٌ فَلَنُحۡیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً۔۔۔ (۱۶ نحل: ۹۷)

جو نیک عمل کرے خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے پاکیزہ زندگی ضرور عطا کریں گے

لہٰذا مومن نہ صرف خسارے میں نہیں ہے بلکہ وہ فائدے میں ہے۔ اس دنیا کی پرآشوب زندگی کو دے کر آخرت کی پاکیزہ زندگی حاصل کرتا ہے۔

۳۔ وَ تَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّ: ایک دوسرے کو حق کی تلقین کرنا عمل صالح میں شامل ہے۔ اس کے باوجود حق کی تلقین کی اہمیت کے پیش نظر اس کا خصوصی ذکر فرمایا۔ حق باطل کے مقابلے میں آتا ہے۔ حق وجود اور ثبوت کو کہتے ہیں اور باطل عدم اور نابودی کو کہتے ہیں۔ حق کی دعوت ایک ایسی عمومیت کی حامل ہے جس میں تمام حقائق شامل ہو جاتے ہیں۔ خواہ ان کا تعلق عقائد سے ہو یا احکام سے یا اخلاقیات سے۔

۴۔ وَ تَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ: ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرنا اعمال صالحہ میں شامل ہے پھر بھی اس کی اہمیت کے پیش نظر اس کا خصوصی طور پر ذکر فرمایا ہے۔ چونکہ حق کا حصول اور حق کی تلقین ایسی چیز نہیں ہے جو آسانی سے ہاتھ آ جائے۔ یہ نہایت صبر آزما ہوتا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:

الْحَقُّ اَوْسَعُ الْاَشْیَائِ فِی التَّوَاصُفِ وَ اَضْیَقُھَا فِی التَّنَاصُفِ۔۔۔۔ (شرح نہج البلاغۃ ۱۱: ۸۸)

حق مقام بیان میں سب سے زیادہ وسیع تر ہے مگر مقام عمل میں سب سے زیادہ تنگ تر ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے

رَاَسُ طَاعَۃِ اللہِ الصَّبْرُ۔۔۔۔ (الکافی ۲: ۶۰)

اللہ کی اطاعت کی بنیاد صبر ہے۔

دوسری حدیث ہے:

اِذَا ذَھَبَ اَلصَّبْرُ ذَھَبَ الْاِیْمَانُ۔ ( الکافی۲: ۸۷)

جب صبر چلا جاتا ہے تو ایمان چلا جاتا ہے۔

الصبر علی طاعۃ اللہ اھون من الصبر علی العقوبتہ۔ (غرر الحکم۔ حکمت:۶۳۰۶)

اللہ کی اطاعت پر صبر کرنا اللہ کے عذاب پر صبر کرنے سے زیادہ آسان ہے۔

الصَّبْرُ عَنِ الشَّہْوَۃِ عِفَّۃٌ وَ عَنِ الْغَضَبِ نَجْدَۃٌ وَ عِنِ الْمَعْصِیَۃِ وَرَعٌ۔ (مستدرک الوسائل ۱۱: ۲۶۳)

خواہشات پر صبر کرنا پاکدامنی ہے۔ غصے کے موقع پر صبر کرنا بہادری ہے۔ گناہ ترک کرنے پر صبر کرنا پرہیزگاری ہے۔


آیت 3