آیت 165
 

اَوَ لَمَّاۤ اَصَابَتۡکُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ قَدۡ اَصَبۡتُمۡ مِّثۡلَیۡہَا ۙ قُلۡتُمۡ اَنّٰی ہٰذَا ؕ قُلۡ ہُوَ مِنۡ عِنۡدِ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۱۶۵﴾

۱۶۵۔ (مسلمانو! ) جب تم پر ایک مصیبت پڑی تو تم کہنے لگے: یہ کہاں سے آئی؟ جبکہ اس سے دگنی مصیبت تم (فریق مخالف پر)ڈال چکے ہو، کہدیجئے: یہ خود تمہاری اپنی لائی ہوئی مصیبت ہے، بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اَوَ لَمَّاۤ اَصَابَتۡکُمۡ: اسی سورۂ مبارکہ کی آیت ۱۴۰ میں ذکر ہوا ہے کہ مسلمانوں کا خیال یہ تھا کہ حق پر ہونے کی وجہ سے وہ علل و اسباب سے بالاتر ہیں۔

۲۔ مِنۡ عِنۡدِ اَنۡفُسِکُمۡ: اس آیت میں اس غلط فہمی کا ازالہ ہے کہ یہ خود تمہاری اپنی لائی ہوئی مصیبت ہے۔ یہ قانون فطرت اور سنت تاریخ ہے، جس کے تحت تمہیں شکست کی مصیبت اٹھانا پڑی۔ تمہاری خیانت اور اپنے قائد کی نافرمانی نے تمہیں شکست سے دوچار کیا ہے۔ اللہ کے نظام علل و اسباب میں یہ نہیں ہو سکتا کہ تم خیانت کرو اور اس کا نتیجہ فتح و نصرت ہو نیز تم اپنی قیادت کی نافرمانی کرو اور اس کا نتیجہ عزت و سر بلندی ہو۔

۳۔ قَدۡ اَصَبۡتُمۡ مِّثۡلَیۡہَا: اس کے باوجود اس صدمے میں تخفیف کی خاطر جنگ احد کا جنگ بدر سے موازنہ ہو رہا ہے کہ وہاں تم نے ان کے ستر مارے اور ستر اسیر بنائے اور آج تمہارے ستر افراد شہید ہوئے ہیں اور کسی کو اسیر نہیں بنایا۔

اہم نکات

۱۔ نتائج اسباب و علل کے تابع ہوتے ہیں۔

۲۔ جیسا کروگے ویسا بھرو گے: ہُوَ مِنۡ عِنۡدِ اَنۡفُسِکُمۡ ۔۔۔۔

۳۔ قیادت کی نافرمانی کا نتیجہ شکست، مصیبت اور رسوائی ہے۔


آیت 165