آیات 166 - 168
 

وَ مَاۤ اَصَابَکُمۡ یَوۡمَ الۡتَقَی الۡجَمۡعٰنِ فَبِاِذۡنِ اللّٰہِ وَ لِیَعۡلَمَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۱۶۶﴾ۙ

۱۶۶۔ اور دونوں فریقوں کے درمیان مقابلے کے روز تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ اللہ کے اذن سے تھی اور (اس لیے بھی کہ) اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ مومن کون ہیں۔

وَ لِیَعۡلَمَ الَّذِیۡنَ نَافَقُوۡا ۚۖ وَ قِیۡلَ لَہُمۡ تَعَالَوۡا قَاتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَوِ ادۡفَعُوۡا ؕ قَالُوۡا لَوۡ نَعۡلَمُ قِتَالًا لَّا تَّبَعۡنٰکُمۡ ؕ ہُمۡ لِلۡکُفۡرِ یَوۡمَئِذٍ اَقۡرَبُ مِنۡہُمۡ لِلۡاِیۡمَانِ ۚ یَقُوۡلُوۡنَ بِاَفۡوَاہِہِمۡ مَّا لَیۡسَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ ؕ وَ اللّٰہُ اَعۡلَمُ بِمَا یَکۡتُمُوۡنَ﴿۱۶۷﴾ۚ

۱۶۷۔ اور یہ بھی دیکھنا چاہتا تھا کہ نفاق کرنے والے کون ہیں،جب ان سے کہا گیا: آؤ اللہ کی راہ میں جنگ کرو یا دفاع کرو تو وہ کہنے لگے: اگر ہمیں علم ہوتا کہ (طریقے کی) جنگ ہو رہی ہے تو ہم ضرور تمہارے پیچھے ہو لیتے، اس دن یہ لوگ ایمان کی بہ نسبت کفر سے زیادہ قریب ہو چکے تھے، وہ اپنے منہ سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتی اور جو کچھ یہ لوگ چھپاتے ہیں اللہ اس سے خوب آگاہ ہے

اَلَّذِیۡنَ قَالُوۡا لِاِخۡوَانِہِمۡ وَ قَعَدُوۡا لَوۡ اَطَاعُوۡنَا مَا قُتِلُوۡا ؕ قُلۡ فَادۡرَءُوۡا عَنۡ اَنۡفُسِکُمُ الۡمَوۡتَ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۱۶۸﴾

۱۶۸۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خود (پیچھے) بیٹھے رہے اور اپنے بھائیوں کے بارے میں کہنے لگے: کاش! اگر وہ ہماری بات مانتے تو قتل نہ ہوتے، ان سے کہدیجئے: اگر تم سچے ہو تو موت کو اپنے سے ٹال دو۔

تفسیر آیات

۱۔ فَبِاِذۡنِ اللّٰہِ: یعنی تم اس جنگ میں اذن خدا سے شکست سے دوچار ہوئے۔ اذن خدا کا مطلب یہ ہے کہ علل و اسباب کے تحت جو نتیجہ مرتب ہونا ہے اس میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے اور ہونے دیا جائے۔ اس ’’رکاوٹ نہ ڈالنے‘‘ اور’’ہونے دینے‘‘ کو اذن کہتے ہیں:

مَاۤ اَصَابَ مِنۡ مُّصِیۡبَۃٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ۔۔ ۔ (۶۴ تغابن: ۱۱)

مصائب میں سے کوئی مصیبت اللہ کے اذن کے بغیر نازل نہیں ہوتی۔

اس جنگ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نافرمانی اور جنگ سے فرار ہونے کا نتیجہ شکست کی صورت میں سامنے آنا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس نتیجے کے سامنے رکاوٹ نہیں ڈالی اور مسلمانوں کو شکست سے دوچار ہونے دیا تاکہ مؤمن اور منافق میں امتیاز ہو جائے۔

۲۔ وَ لِیَعۡلَمَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ: دوسری وجہ اس ہونے دینے کی یہ تھی کہ اس شکست سے مؤمن اور منافق میں امتیاز آ گیا یا یوں کہنا چاہیے، اس جنگ سے مؤمن اور منافق میں امتیاز آ گیا۔ چونکہ آگے گفتگو جنگ سے پہلے اور بعد کے واقعات کے بارے میں ہے اور منافقین کا تو فتح و شکست میں حصہ نہیں، کیونکہ منافقین نے جنگ میں شرکت ہی نہیں کی۔

۳۔ وَ قِیۡلَ لَہُمۡ تَعَالَوۡا: منافقین سے کہا گیا کہ آؤ راہ خدا میں جہاد کریں یا مسلمانوں کے ساتھ رہو۔

۴۔ اَوِ ادۡفَعُوۡا: یعنی اگر تم جنگ میں شرکت نہیں کرتے تو کم از کم لشکر اسلام کے ساتھ رہو تاکہ اس سے لشکر کو تقویت ملے اور مسلمانوں کا دفاع ہو سکے۔ منافقین نے یہ تجویز بھی مسترد کر دی۔ ممکن ہے کہ اَوِ ادۡفَعُوۡا سے مراد یہ ہو کہ اگر جنگ نہیں لڑتے تو کم از کم اپنے شہر اور آبادی کا دفاع تو کرو۔

۵۔ قَالُوۡا لَوۡ نَعۡلَمُ قِتَالًا: شہر سے باہر لڑناکوئی جنگ ہوتی تو ہم شرکت کرتے۔ منافقین مسلمانوں سے کہتے تھے کہ تمہارا یہ طریقۂ جنگ خودکشی کے مترادف ہے۔ اگر تم صحیح جنگ لڑتے تو ہم بھی شرکت کرتے۔

۶۔ ہُمۡ لِلۡکُفۡرِ یَوۡمَئِذٍ اَقۡرَبُ: کفر کے قریب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ باطن میں تو تھے ہی کافر، لیکن اب کھل کر کافرانہ حرکات کرنے لگے۔

۷۔ یَقُوۡلُوۡنَ بِاَفۡوَاہِہِمۡ: وہ منہ سے کہتے تو یہ ہیں کہ تم شہر سے باہر لڑ رہے ہو، اس لیے ہم اس جنگ میں شرکت نہیں کرتے، جب کہ ان کے دلوں میں جو بات ہے، وہ یہ ہے کہ ہر صورت میں اللہ کے رسول ؐکے ساتھ جنگ میں شرکت نہیں کرنا ہے۔

۸۔ اَلَّذِیۡنَ قَالُوۡا لِاِخۡوَانِہِمۡ: یہاں برادری سے مراد دینی و نظریاتی نہیں بلکہ قبیلے کی برادری مراد ہے۔ یعنی یہ منافقین اپنے ہر قبیلہ کے افراد کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر یہ لوگ ہماری بات مان لیتے تو قتل نہ ہوتے۔

۹۔ قُلۡ فَادۡرَءُوۡا: جواب میں ان منافقین سے کہدیجیے کہ جنگ میں شرکت نہ کرنے سے موت ٹل جاتی ہے تو تم اپنے سے موت کو ٹال دو۔ پہلے ذکر ہوا جنگ کو موت کے لیے مستقل سبب قرار دینا کافرانہ سوچ ہے۔

اہم نکات

۱۔ فتح و شکست اپنے مخصوص علل و اسباب کا نتیجہ ہے، جو اللہ کے وضع کردہ قانون علیت کے تابع ہیں: فَبِاِذۡنِ اللّٰہِ ۔۔۔۔

۲۔ جنگی حالات میں مومنین اور مجاہدین کا ساتھ نہ دینا اور لاتعلق رہنا، نفاق اور کفر سے قربت کی علامت ہے: ہُمۡ لِلۡکُفۡرِ یَوۡمَئِذٍ اَقۡرَبُ مِنۡہُمۡ لِلۡاِیۡمَانِ ۔۔۔۔

۳۔ منافقین ہی اہل ایمان کی پالیسیوں کو اپنی تخریبی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں: لَوۡ نَعۡلَمُ قِتَالًا ۔۔۔۔

۴۔ منافق موت و حیات کو اللہ کے قبضۂ قدرت میں نہیں، بلکہ حوادث روزگار کا نتیجہ قرار دیتا ہے: لَوۡ اَطَاعُوۡنَا مَا قُتِلُوۡا ۔۔۔۔۔


آیات 166 - 168