آیات 7 - 8
 

وَیۡلٌ لِّکُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیۡمٍ ۙ﴿۷﴾

۷۔ تباہی ہے ہر جھوٹے گنہگار کے لیے،

یَّسۡمَعُ اٰیٰتِ اللّٰہِ تُتۡلٰی عَلَیۡہِ ثُمَّ یُصِرُّ مُسۡتَکۡبِرًا کَاَنۡ لَّمۡ یَسۡمَعۡہَا ۚ فَبَشِّرۡہُ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ﴿۸﴾

۸۔ وہ اللہ کی آیات کو جو اس کے سامنے پڑھی جاتی ہیں سن تو لیتا ہے پھر تکبر کے ساتھ ضد کرتا ہے گویا اس نے انہیں سنا ہی نہیں، سو اسے دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دیجئے۔

تشریح کلمات

وَیۡلٌ:

( و ی ل ) اصمعی نے کہا ہے: ویل برُے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ حسرت کے موقع پر ویل ، تحقیر کے لیے ویس اور ترحم کے لیے ویح استعمال ہوتا ہے۔

اَفَّاکٍ:

( ا ف ک ) الافک ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنے صحیح رخ سے پھیر دی گئی ہو۔

اَثِیۡمٍ:

( ا ث م ) الاثم وہ افعال و اعمال جو ثواب سے روکنے اور پیچھے رکھنے والے ہوں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَیۡلٌ لِّکُلِّ اَفَّاکٍ: ہلاکت اور تباہی اس شخص کا مقدر ہے جو بہت جھوٹ بولتا ہے اور ساتھ گناہ کا بھی ارتکاب کرتا ہے۔ جھوٹ یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے۔ گناہ یہ کہ انسان سوز جرائم کا ارتکاب کرنا ہے۔

۲۔ یَّسۡمَعُ اٰیٰتِ اللّٰہِ: جھوٹ زیادہ بولنے والا ہونے کی وجہ سے سچ اسے پسند نہیں ہوتا اور گناہ کا زیادہ مرتکب ہونے کی وجہ سے آیات الٰہی کا اس پر اثر نہیں ہوتا بلکہ ان دو باتوں کا حامل انسان تکبر اور خود بینی میں مبتلا رہتا ہے۔

۳۔ ثُمَّ یُصِرُّ: کفر پر اڑ جانا اور معجزات اور دلائل کے مقابلے میں اپنی ضد پر ڈٹ جانا تکبر اور خود بینی کا لازمہ ہے۔

۴۔ فَبَشِّرۡہُ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ: ایسے شخص کو دردناک عذاب کی خوش خبری دے دو۔ یہ خبر اگرچہ اس کے لیے خوش نہیں ہے لیکن دنیا میں اس متکبرانہ مزاج کے لیے یہ خبر تمسخر اور استہزا کے طور پر خوشخبری قرار دی جیسا کہ ذُقۡ ۚۙ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡکَرِیۡمُ۔ (۴۴ دخان: ۴۹ (ترجمہ): چکھ (عذاب) بے شک تو (جہنم کی ضیافت میں) بڑی عزت والا، اکرام والا ہے۔) میں ذکر ہوا کہ جسمانی عذاب کے ساتھ نفسیاتی عذاب میں بھی مبتلا کیا جائے گا۔


آیات 7 - 8