آیات 11 - 14
 

بَلۡ کَذَّبُوۡا بِالسَّاعَۃِ ۟ وَ اَعۡتَدۡنَا لِمَنۡ کَذَّبَ بِالسَّاعَۃِ سَعِیۡرًا ﴿ۚ۱۱﴾

۱۱۔ بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ) انہوں نے قیامت کو جھٹلایا اور جو قیامت کو جھٹلائے اس کے لیے ہم نے جہنم تیار کر رکھی ہے۔

اِذَا رَاَتۡہُمۡ مِّنۡ مَّکَانٍۭ بَعِیۡدٍ سَمِعُوۡا لَہَا تَغَیُّظًا وَّ زَفِیۡرًا﴿۱۲﴾

۱۲۔ جب وہ (جہنم) دور سے انہیں دیکھے گی تو یہ لوگ غضب سے اس کا بپھرنا اور دھاڑنا سنیں گے۔

وَ اِذَاۤ اُلۡقُوۡا مِنۡہَا مَکَانًا ضَیِّقًا مُّقَرَّنِیۡنَ دَعَوۡا ہُنَالِکَ ثُبُوۡرًا ﴿ؕ۱۳﴾

۱۳۔ اور جب انہیں جکڑ کر جہنم کی کسی تنگ جگہ میں ڈال دیا جائے گا تو وہاں وہ موت کو پکاریں گے۔

لَا تَدۡعُوا الۡیَوۡمَ ثُبُوۡرًا وَّاحِدًا وَّ ادۡعُوۡا ثُبُوۡرًا کَثِیۡرًا﴿۱۴﴾

۱۴۔ (تو ان سے کہا جائے گا) آج ایک موت کو نہ پکارو بلکہ بہت سی اموات کو پکارو۔

تشریح کلمات

زَفِیۡرًا:

( ز ف ر ) الزفیر کے اصل معنی سانس کے اس قدر تیزی سے آمد و رفت کے ہیں کہ اس سے سینہ پھول جائے۔

مُّقَرَّنِیۡنَ:

(ق ر ن) قرنت البعیر مع البعیر ۔ دو اونٹوں کو ایک رسی کے ساتھ باندھا جانا۔

ثُبُوۡرًا:

( ث ب ر ) الثبور ہلاک ہونے کے معنوں میں ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ بَلۡ کَذَّبُوۡا بِالسَّاعَۃِ: انکار نبوت کا اصل محرک وہ باتیں نہیں جن کا ان لوگوں نے ذکر کیا ہے بلکہ اس انکار کا اصل محرک انکار معاد ہے۔ وہ قیامت کو تسلیم کرنا نہیں چاہتے۔ مجرم اپنے جرم پر کسی عدالت و محاسبہ کے لیے آمادہ نہیں ہوتا۔ جب ان کے نزدیک یوم حساب نہیں ہے، عذاب و ثواب نہیں ہے، جنت و نار نہیں ہے تو قانون، شریعت اور رسالت بے معنی ہو جاتی ہے۔

۲۔ اِذَا رَاَتۡہُمۡ: جب جہنم ان مجرموں کو دیکھ لے گی تو غیض و غضب میں آئے گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ جہنم کی آگ دنیا کی آگ کی طرح بے شعور نہیں بلکہ مجرموں کو شعور و آگہی کے ساتھ قصداً جلا دے گی جیسا کہ جب جہنم سے خطاب ہوا: ہَلِ امْتَلَاْتِ کیا تو بھر گئی تو اس نے جواب میں کہا: ہَلۡ مِنۡ مَّزِیۡدٍ (۵۰ ق: ۳۰)

۳۔ وَ اِذَاۤ اُلۡقُوۡا مِنۡہَا: جب یہ مجرم لوگ زنجیروں میں جکڑ کر جہنم کی تنگ جگہ پر ڈال دیے جائیں گے تو وہ موت کو پکاریں گے۔ جہنم کے عذاب میں سے ایک عذاب تنگی ہے جیسا کہ جنت کی نعمتوں میں سے ایک نعمت وسعت ہے۔

۴۔ لَا تَدۡعُوا: ان سے کہا جائے گا ایک موت کو نہیں بلکہ بے شمارا موات کو پکارو۔ ہر آن موت اور مسلسل موت کی سی شدت میں رہیں گے اور جہنم میں پیش آنے والی موت کے بعد خلاصی نہ ہو گی بلکہ ہر وقت موت جیسا عذاب ہو گا۔ چنانچہ:

کُلَّمَا نَضِجَتۡ جُلُوۡدُہُمۡ بَدَّلۡنٰہُمۡ جُلُوۡدًا غَیۡرَہَا ۔۔۔۔ (۴ نساء: ۵۶)

جب بھی ان کی کھالیں گل جائیں گی (ان کی جگہ) ہم دوسری کھالیں پیدا کریں گے۔

سے واضح ہے۔

اہم نکات

۱۔ جہنم قصد و ارادے سے بحکم خدا عذاب دے گی۔

۲۔ ہر مصیبت سے موت کے بعد آزادی ملتی ہے سوائے جہنم کے۔ یہاں ہر وقت موت ہے۔


آیات 11 - 14