آیت 10
 

تَبٰرَکَ الَّذِیۡۤ اِنۡ شَآءَ جَعَلَ لَکَ خَیۡرًا مِّنۡ ذٰلِکَ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ۙ وَ یَجۡعَلۡ لَّکَ قُصُوۡرًا﴿۱۰﴾

۱۰۔ بابرکت ہے وہ ذات کہ اگر وہ چاہے تو آپ کے لیے اس سے بہتر ایسے باغات بنا دے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں اور آپ کے لیے بڑے بڑے محل بنا دے۔

تفسیر آیات

۱۔ تَبٰرَکَ الَّذِیۡۤ اِنۡ شَآءَ جَعَلَ لَکَ خَیۡرًا: اگر اللہ کی مشیت اور حکمت کا تقاضا اس میں ہوتا تو دنیا میں بھی آپ کے لیے ان چیزوں سے بہتر نعمتوں کی فراوانی کر دیتا جن کا تصور یہ لوگ کر رہے ہیں مگر اللہ اپنے رسول کو کردار و سیرت کے لیے اسوہ بناتا ہے اور نہ صرف ناز و نعمت میں نہیں رکھتا بلکہ ہر قسم کی آزمائش میں مبتلا کر دیتا اور ہلا کر کے رکھ دیتا ہے:

وَ زُلۡزِلُوۡا حَتّٰی یَقُوۡلَ الرَّسُوۡلُ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ مَتٰی نَصۡرُ اللّٰہِ ۔۔۔۔ (۲ بقرہ: ۲۱۴)

اور وہ اس حد تک جھنجھوڑے گئے کہ (وقت کا) رسول اور اس کے مومن ساتھی پکار اٹھے کہ آخر اللہ کی نصرت کب آئے گی؟

یہاں تک کہ رسول اور رسول کے ساتھ ایمان لانے والے کہہ اٹھتے ہیں: اللہ کی نصرت کب آئے گی؟ یہ آزمائش اس حد تک کٹھن ہوتی ہے کہ ناامیدی کی سرحد تک پہنچنے والے ہوتے ہیں:

حَتّٰۤی اِذَا اسۡتَیۡـَٔسَ الرُّسُلُ وَ ظَنُّوۡۤا اَنَّہُمۡ قَدۡ کُذِبُوۡا جَآءَہُمۡ نَصۡرُنَا ۔۔۔۔ (۱۲ یوسف: ۱۱۰)

یہاں تک کہ جب انبیاء (لوگوں سے) مایوس ہو گئے اور لوگ بھی یہ خیال کرنے لگے کہ ان سے جھوٹ بولا گیا تھا تو پیغمبروں کے لیے ہماری نصرت پہنچ گئی۔

اسی لیے اس الٰہی منصب کا ہر کوئی اہل نہیں ہوتا۔

اہم نکات

۱۔ الٰہی منصب ناز و نعمت میں نہیں، کڑی آزمائشوں میں رکھا گیا ہے۔


آیت 10