آیات 7 - 9
 

وَ قَالُوۡا مَالِ ہٰذَا الرَّسُوۡلِ یَاۡکُلُ الطَّعَامَ وَ یَمۡشِیۡ فِی الۡاَسۡوَاقِ ؕ لَوۡ لَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِ مَلَکٌ فَیَکُوۡنَ مَعَہٗ نَذِیۡرًا ۙ﴿۷﴾

۷۔ اور وہ کہتے ہیں: یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے؟ اس پر کوئی فرشتہ کیوں نازل نہیں ہوتا؟ تاکہ اس کے ساتھ تنبیہ کر دیا کرے۔

اَوۡ یُلۡقٰۤی اِلَیۡہِ کَنۡزٌ اَوۡ تَکُوۡنُ لَہٗ جَنَّۃٌ یَّاۡکُلُ مِنۡہَا ؕ وَ قَالَ الظّٰلِمُوۡنَ اِنۡ تَتَّبِعُوۡنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسۡحُوۡرًا﴿۸﴾

۸۔ یا اس کے لیے کوئی خزانہ نازل کر دیا جاتا یا اس کا کوئی باغ ہوتا جس سے وہ کھا لیا کرتا اور ظالم لوگ (اہل ایمان سے) کہتے ہیں: تم تو ایک سحرزدہ شخص کی پیروی کرتے ہو۔

اُنۡظُرۡ کَیۡفَ ضَرَبُوۡا لَکَ الۡاَمۡثَالَ فَضَلُّوۡا فَلَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ سَبِیۡلًا﴿٪۹﴾

۹۔ دیکھیے! یہ لوگ آپ کے بارے میں کیسی باتیں بنا رہے ہیں، پس یہ ایسے گمراہ ہو گئے ہیں کہ ان کے لیے راہ پانا ممکن نہیں ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ قَالُوۡا مَالِ ہٰذَا الرَّسُوۡلِ یَاۡکُلُ الطَّعَامَ: مشرکین کا یہ نظریہ تھا کہ بشر، اللہ کا رسول نہیں ہو سکتا۔ مادی وجود، اللہ کی نمائندگی نہیں کر سکتا۔ اسی لیے وہ فرشتوں کو اللہ تک پہنچنے کے لیے وسیلہ سمجھتے، ان کی پرستش کرتے اور ان کے نزدیک کھانا اور لوگوں کے درمیان چلنا پھرنا رسالت کے منافی تھا۔

۲۔ لَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِ مَلَکٌ فَیَکُوۡنَ مَعَہٗ نَذِیۡرًا: اگر کوئی، بشر رسول بن سکتا ہے تو اس کی ایک صورت یہ ہے کہ ایک فرشتہ اس کے ساتھ ہو اور اس کے ذریعے غیب کے ساتھ رابطہ قائم ہو۔ پھر یہ بشر اور فرشتہ دونوں مل کر نذیر بن جائیں: فَیَکُوۡنَ مَعَہٗ نَذِیۡرًا ۔

۳۔ اَوۡ یُلۡقٰۤی اِلَیۡہِ کَنۡزٌ: دوسری صورت یہ ہو سکتی تھی کہ اس رسول پر کوئی خزانہ اتار دیتا۔ ایک فقیر، نادار جو اپنے نان جویں کا محتاج ہو، اللہ کا نمایندہ کیسے ہو سکتا ہے؟

۴۔ اَوۡ تَکُوۡنُ لَہٗ جَنَّۃٌ: یا اس کے پاس ایسا باغ ہوتا جس سے وہ اپنی معیشت مستحکم کرتا۔

۵۔ وَ قَالَ الظّٰلِمُوۡنَ اِنۡ تَتَّبِعُوۡنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسۡحُوۡرًا: یہ مشرکین، یہ ظالم لوگ کہتے ہیں: اس شخص کے ساتھ نہ فرشتہ ہے، نہ اس کے پاس خزانہ ہے، نہ کھانے کے لیے باغ ہے لہٰذا یہ اللہ کا نمایندہ نہیں ہے۔ مسلمانو! تم ایک سحر زدہ شخص کی پیروی کرتے ہو۔

جب مشرکین یہ الزام لگاتے ہیں: وَ اَعَانَہٗ عَلَیۡہِ قَوۡمٌ اٰخَرُوۡنَ اس قرآن کو گھڑنے میں دوسرے لوگوں نے اس کی مدد کی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ رسول نہایت عاقل سمجھدار ہے۔ دوسروں سے سیکھ کر پرکشش باتیں بناتا ہے۔

جب کہتے ہیں: رَجُلًا مَّسۡحُوۡرًا یہ سحرزدہ آدمی ہے تو کسی سے کچھ سیکھنے کے قابل نہیں ہے چونکہ سحرزدہ انسان کچھ سیکھ نہیں سکتا۔ اس طرح ان مشرکین کے الزامات میں تضاد اور تصادم ہے۔ سچ ہے، جھوٹ کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی۔

۶۔ اُنۡظُرۡ کَیۡفَ ضَرَبُوۡا لَکَ الۡاَمۡثَالَ: یہ آپ ؐکے بارے میں متضاد اور مختلف باتیں بنانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن خود آپؐ کے خلاف ایک الزام پر بھی ثابت قدم نہیں رہ سکتے۔ متضاد باتیں کر کے نہ صرف انہیں حق کا راستہ نہیں ملتا بلکہ باطل پر چلنے کے راستے میں بھی تضاد کا شکار ہیں: فَضَلُّوۡا فَلَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ سَبِیۡلًا ۔


آیات 7 - 9