آیات 11 - 12
 

وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ لَا تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّمَا نَحۡنُ مُصۡلِحُوۡنَ﴿۱۱﴾

۱۱۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد برپا نہ کرو تو کہتے ہیں: ہم تو بس اصلاح کرنے والے ہیں۔

اَلَاۤ اِنَّہُمۡ ہُمُ الۡمُفۡسِدُوۡنَ وَ لٰکِنۡ لَّا یَشۡعُرُوۡنَ﴿۱۲﴾

۱۲۔ یاد رہے! فسادی تو یہی لوگ ہیں، لیکن وہ اس کا شعور نہیں رکھتے۔

تشریح کلمات

فساد:

( ف س د ) حد اعتدال سے تجاوز کرنا۔ توازن بگڑ جانا۔ ’’فساد‘‘ اصلاح کی ضد ہے:

لَوْ كَانَ فِيْہِمَآ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللہُ لَفَسَدَتَا ۔۔۔۔ {۲۱ انبیاء : ۲۲}

اگر آسمان اور زمین میں اللہ کے سوا معبود ہوتے تو دونوں (کے نظام) درہم برہم ہو جاتے۔

مُصْلِحُوْنَ:

( ص ل ح ) اصلاح یعنی خرابی دور کرنا، ٹھیک کرنا، صلح کرانا۔

تفسیر آیات

فساد فی الارض : منافقین کی تیسری علامت یہ ہے کہ وہ معاشرے کا امن و سکون برباد کرتے، لوگوں کے درمیان نفرت کا بیج بوتے اور ان میں تفرقہ ڈالتے ہیں۔ پھر وہ اس تخریب کاری کو اصلاح کا نام دے کر یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ ہم تواجتماعی مفادات کے تحفظ کی خاطر یہ کام کر رہے ہیں۔ ہم تو عوام کی فلاح و بہبود میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس قسم کے دلفریب نعروں کی آڑ میں یہ لوگ اقوام و مذاہب کا استحصال کرتے ہیں اور ان میں خانہ جنگی کراتے ہیں اور اس طرح ان پر حکومت کرتے ہیں۔ منافقین کا یہ رویہ جس طرح عصر رسالت(ص) کے معاشرے میں رہا ہے، آج بھی جاری ہے۔ البتہ اب ان کا دائرۂ عمل وسیع ہو گیا ہے۔

اہم نکات

۱۔ اصلاح کے روپ میں تخریب کاری منافقین کا شیوہ ہے: اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ ۔

۲۔ منافقین ہمیشہ دلفریب نعروں کے ساتھ میدان میں اترتے ہیں: اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ ۔

۳۔ حق کی جماعت منافقین کی سازشوں پرنظر رکھتی ہے۔ لَا تُفْسِدُوْا ۔۔۔


آیات 11 - 12