آیت 7
 

اِنۡ اَحۡسَنۡتُمۡ اَحۡسَنۡتُمۡ لِاَنۡفُسِکُمۡ ۟ وَ اِنۡ اَسَاۡتُمۡ فَلَہَا ؕ فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ لِیَسُوۡٓءٗا وُجُوۡہَکُمۡ وَ لِیَدۡخُلُوا الۡمَسۡجِدَ کَمَا دَخَلُوۡہُ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّ لِیُتَبِّرُوۡا مَا عَلَوۡا تَتۡبِیۡرًا﴿۷﴾

۷۔ اگر تم نے نیکی کی تو اپنے لیے نیکی کی اور اگر تم نے برائی کی تو بھی اپنے حق میں کی پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا۔ (تو ہم نے ایسے دشمنوں کو مسلط کیا ) وہ تمہارے چہرے بدنما کر دیں اور مسجد (اقصیٰ) میں اس طرح داخل ہو جائیں جس طرح اس میں پہلی مرتبہ داخل ہوئے تھے اور جس جس چیز پر ان کا زور چلے اسے بالکل تباہ کر دیں۔

تفسیر آیات

۱۔ اِنۡ اَحۡسَنۡتُمۡ اَحۡسَنۡتُمۡ لِاَنۡفُسِکُمۡ: خطاب اگرچہ بنی اسرائیل سے ہے تاہم یہ ایک کلیہ ہے کہ نیکی کے مثبت اثرات سب سے پہلے نیکی کرنے والے پر مرتب ہوتے ہیں۔ اسی طرح برائی کے منفی اثرات برائی کا ارتکاب کرنے والے پر مترتب ہوتے ہیں۔ مثلاً ظالم پر ظلم کے اثرات مظلوم سے زیادہ ہوتے ہیں۔ چنانچہ نہج البلاغة حکمت ۲۴۱ میں حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:

یوم المظلوم علی الظالم اشد من یوم الظالم علی المظلوم ۔۔۔۔

مظلوم کے خلاف ظالم کے دن سے، ظالم کے خلاف مظلوم کا دن بہت شدید ہو گا۔

۲۔ فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ: زیادہ امکان یہ ہے کہ دوسرے وعدے سے مراد رومیوں کا وہ حملہ ہو جو ۷۰ ء؁ میں یروشلم پر ہوا، جس میں ایک لاکھ تینتیس ہزار آدمی مارے گئے۔ ۶۷ ہزار کو غلام بنا لیا گیا۔ یروشلم کے شہر کو ہیکل سلیمانی سمیت ایسا تباہ کر دیا کہ ہیکل دوبارہ تعمیر نہ ہو سکا۔

ہم نے مذکورہ دو واقعات کو اس لیے ترجیح دی کہ یہ دونوں واقعے اسرائیلی تاریخ کے اہم ترین یا یوں کہیے بدترین واقعے ہیں۔ ثانیاً قرطبی کی ایک روایت میں آیا ہے کہ فساد اول سے مراد بخت نصر کا حملہ اور فساد دوم سے مراد رومیوں کا حملہ ہے۔ یہ روایت حضرت حذیفہ ؓنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کی ہے جو تاریخی واقعات کے مطابق ہے۔

اہم نکات

۱۔ قوموں کا زوال و عروج ان کے کردار سے مربوط ہے۔

۲۔ نیکی و برائی کے اثرات خود انجام دینے والے پر پہلے اور زیادہ مرتب ہوتے ہیں۔


آیت 7